یہ سانحۂ نفرت ہے
ملک میں نہایت ہی تیزی کے ساتھ مذہب مخالف رجحانات میں اضافہ ہورہاہے
ڈاکٹر غلام زرقانی چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکہ
اچانک موت توویسے ہی اچھے اچھوں کو سکتے میں ڈال دیتی ہے ، لیکن اگریہی موت بظاہر مذہبی منافرت کی طرف اشارہ کرے، توروئے زمین پر بسنے والے ہر انصاف پسند شہری کے لیے نہایت ہی تشویشناک ہے ، جس کی نہ صرف مذمت کی جانی چاہیے، بلکہ خاطیوں پر قتل وخون کے ساتھ ساتھ دوگروہوں میں تصادم کی راہ ہموارکرنےوالی سخت شقیں بھی شامل کرنی چاہئیں۔
ہوا یہ کہ ملک کی مشہور ومعروف تعلیمی دانشگاہ جامعہ امجدیہ گھوسی میں عیدالفطر کے موقع پر معمول کے مطابق تعطیل کلاں ہوئی اور طلبہ اپنےگھروں کو جانے کے لیے نکل پڑے۔ جو احباب زمانہ طالب علمی میں کسی مدرسہ، کالج یا یونیورسٹی کے دارالاقامہ میں قیام کرچکے ہیں ، وہ اچھی طرح محسوس کریں گے کہ چھٹی کے موقع پر اپنے گھرجانے کا تصور کس قدر پرلطف ہوتاہے ۔ تعلیمی میعاد کی تکمیل کے قریب آتے ہی طلبہ ایک ایک دن انگلیوں میں شمار کرتے ہیں ۔ ہفتہ عشر ایام پہلے سے ہی سامان سفر تیار کیا جاتاہے ۔ اورپھر جوں ہی چھٹی ہوئی ، ایک لمحے کے لیے بھی ادارے میں ٹھہرنا مشکل ہوجاتاہے ۔ کچھ طلبہ دوپہر کے وقت، کچھ شام اور کچھ رات کےابتدائی حصے میں ہی نکل پڑتے ہیں ۔ والدین اوررشتہ داروں سے ملاقات کی تڑپ ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ آنے والی صبح کا انتظار نہایت ہی صعب ہوجاتاہے۔ ایسی ہی کچھ حالت جامعہ امجدیہ گھوسی میں زیر تعلیم ریحان اور شمشیر کی تھی۔ بتایاجاتاہے کہ یہ دونوں پریاگ راج کے قریب کسی قصبے سے تعلق رکھتے تھے ۔ دونوں دوپہر کے وقت مدرسہ سے نکل پڑے اور شام تک سیداپورپہنچے ، جو پریاگ راج سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔ سیداپورپہنچتے پہنچتے رات ہوگئی ، اس لیے وہاں مدرسہ نافع العلوم میں قیام کیا۔ صبح چائے ناشتے سے فارغ ہوکر دونوں اپنے قصبے تک جانے کے لیے سواری کی تلاش میں تھے۔ تیز تیز قدموں سے سڑک کے کنارے بنی ہوئی لوہے کی رلنگ کے ساتھ ساتھ جارہے تھے کہ اتنے میں ایک سفید رنگ کی بولیرو تیزی سے آتی ہے اور دونوں کو کچلتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہے۔
ابتدائی رپورٹ میں تویہ کہا جارہاتھا کہ یہ حادثاتی موت ہے ، تاہم قریب کی دکان سے حاصل ہونے والی سی سی فوٹیج میں صاف دکھائی دے رہاہے کہ سڑک پوری طرح خالی ہے اور متذکرہ بالا دونوں طلبہ سڑک کے بالکل کنارے چل رہے ہیں ۔ سڑک بھی ایسی ہے ، جس پر کم از کم تین گاڑیاں بیک وقت دوڑ سکتی ہیں ۔ اس قدر وسیع وعریض سڑک کے باوجود سفید رنگ کی بولیرو لوہے کی رلنگ کے کنارے چلتے ہوئے دونوں طلبہ کو پیچھے سے روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہے ۔ اگر سڑک میں کئی گاڑیاں دوڑ رہی ہوتیں اور سفید بولیرو ان سے آگے نکلنے کے لیے کنارے آتی ، توشاید یہ کہنا کسی حدتک مناسب تھا کہ یہ ڈرائیور کی غلطی سے ہوا ہے ۔ لیکن جب سڑک پوری طرح خالی ہواور وہ اچانک کنارے آجائے ، توکوئی وجہ نہیں کہ اسے دانستہ قتل وخون کے خانے میں نہ رکھا جائے ۔
اچھا پھر یہ بھی تودیکھیے کہ اگر یہ غیر دانستہ حرکت ہوتی ، توجب بولیرو گاڑی سڑک کے کنارے آتی ہے ، تواسے طلبہ کو روندتے ہوئے لوہے کی رلنگ سے ٹکرا جانا چاہیے ، جب کہ سی سی فوٹیج میں صاف دکھائی دے رہاہے کہ گاڑی اچانک کنارے آتی ہے اور طلبہ کو روندتے ہوئے سڑک کے وسط میں چلی جاتی ہے ۔ ایسا محسوس ہورہاہے کہ گاڑی کے سڑک کے کنارے لانے کا مقصد صرف طلبہ کو روندنا تھا، اسی لیے ڈرائیور نے اپنے مذموم مقصد میں کامیابی کے بعد فورا ہی گاڑی وسط سڑک پر کرلی ۔
عینی شاہدین کے مطابق ایک طالب علم نے وہیں جام شہادت نوش کرلیا، جب کہ دوسرے کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں وہ موت وحیات سے لڑتے ہوئے بالآخر جان کی بازی ہار گیا۔ اندازہ لگائیے کہ اہل خانہ کئی مہینوں سے اپنے لخت جگر کی واپسی کے منتظر تھے ۔ وہ آنکھوں میں خواب سجائے اپنے لاڈلوں کی راہ تک رہے تھے ، لیکن ظالموں نےآہنی پنجوں سے سارے خواب تارتارکرڈالے ۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ طلبہ جلدبازی میں سڑک پارکررہے ہوں اور دوسری جانب سے تیز رفتارگاڑی کی زد میں آگئے ہوں ، بلکہ سی سی ٹی وی فوٹیج چیخ چیخ کر شہادت دے رہی ہے کہ طلبہ سڑک کے بالکل کنارے چل رہے تھے ۔ اس لیے کسی بھی زاویے سے طلبہ کی چھوٹی سی چھوٹی بھی کوئی غلطی شمار نہیں کی جاسکتی۔
بیان کیا جارہاہے کہ بولیروجیپ بنگال میں رجسٹرڈ تھی، جس پر لوگ مہاکمبھ میلے میں شرکت کے بعد پریاگ راج سے واپس ہورہے تھے ۔ اس لیےبہت ممکن ہے کہ یہ مذموم حرکت یوپی کے بڑے صاحب کے منافرتی بیانات کے منفی نتائج ہوں ۔ ظاہرہے کہ جب ذمہ دار عہدوں پر فائز سرکردہ شخصیات ایک مخصوص طبقے کے خلاف مسلسل بیان بازی کریں ، تواس کے منفی اثرات توبہر حال مرتب ہوکر رہیں گے۔ اس لیے متذکرہ بالا حادثہ گرچہ اچانک پیش آیاہے ، لیکن جس طرح ملک کی فضاآئے دن مسموم کی جارہی ہے ، اس سے یہ اندازہ لگانا قطعی دشوار نہیں ہے کہ آنے والے مستقبل میں کیا کچھ ہونے والا ہے ۔ واضح رہے کہ سیاسی عمائدین کی جانب سے منافرتی بیانات کوئی نئے نہیں ہیں ، بلکہ آزادی ہند کے بعد سے ہی وقفے وقفے سے زہر میں بجھے ہوئے جملے اور رکیک بیانات ہم سنتے چلے آرہے ہیں ، تاہم جو بات نئی ہے ، وہ یہ کہ پہلے شاید اکا دکا سرپھرے ہی تکلیف دہ بیانات دیتے تھے ، لیکن اب تونہ صرف اس میں تیزی آئی ہے ، بلکہ حالات ایسے بن رہے ہیں کہ لوگ منافرت پھیلانے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں اور جو آگے نکل جاتاہے ، اس کی پذیرائی بھی خوب ہورہی ہے ۔ اورسچی بات تویہ ہے کہ گذشتہ مرکزی انتخابات ، نیز ماضی قریب میں ہونے والے صوبائی انتخابات کے مواقع پر مذہبی منافرت پر مبنی بیانات سے توقع کے عین مطابق فائدے پہنچ رہے ہیں ، تواسے’ زعفرانی حلقوں‘ میں خوب پذیرائی بھی مل رہی ہے ۔
صاحبو! آپ شاید یقین نہ کریں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس گھڑی میں نے سی سی ٹی وی فوٹیج میں متذکرہ بالا دونوں طالب علموں کے بے دردی سے روندنے کی ویڈیو دیکھی ہے ، اس لمحے سے دل کو قرار نصیب نہیں ہوسکاہے ۔ عالم تصورات میں میری توجہ بار بار حادثہ فاجعہ کی طرف چلی جاتی ہے اور میں آنکھوں کے سامنے انھیں بار بار شہید ہوتا ہوا دیکھ رہاہوں ۔ کیسے نورانی چہرے تھے صاحبزادگان کے ، اپنے اہل خانہ سے ملاقات کی کیسی تڑپ تھی ان کے دلوں میں ، کس قدر فرحت وانبساط کے سائے میں وہ تیز تیز قدموں سے منزل کی جانب بڑھنے کی کوشش کررہے تھے ؟
مجھے معلوم ہے کہ پولس معمول کی کاروائی کرے گی،پھر نادانستہ قتل وخون کی شقیں ڈال دی جائیں گی، پھر مجرمین کی ضمانت ہوجائے گی اورپھر برسوں تک تاریخ پر تاریخ پڑتی رہے گی ، یہاں تک کہ عینی شاہدین منظر نامے سے غائب ہوجائیں گے اور مجرمین باعزت بری کردیے جائیں گے۔ لیکن کان کھول کر سن لیا جائے کہ مظلوموں کا خون کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتاہے ۔ آج نہیں توکل حق سرچڑھ کر بولے اور آج جو مسند نشیں ہیں ، وہ اپنی قسمت پر ماتم کریں گے۔
۲۲؍فروری ۲۰۲۵ء
ghulamzarquani@yahoo.com
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں