محبت الہی اور عشق مصطفوی

مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما 

محبت الہی اور عشق مصطفوی 

(1) مسلمانوں کو تمام مخلوقات سے زیادہ اللہ تعالی عزوجل سے محبت کرنے کا حکم ہے اور مخلوقات میں سب سے زیادہ اپنے رسول ونبی حضور اقدس حبیب کبریا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے محبت کرنے کا حکم ہے:

ارشاد خداوندی ہے:(والذین آمنوا اشد حبا للہ)(سورہ بقرہ:آیت 165)

ایمان والے سب سے زیادہ محبت اللہ تعالی سے کرتے ہیں۔

(2) مسلمانوں کو مخلوقات میں سب سے زیادہ محبت اپنے رسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم سے کرنے کا حکم ہے۔

حدیث نبوی ہے:(لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین)

(3)کتاب الشفا میں قاضی عیاض مالکی قدس سرہ العزیز نے محبت کے متعدد معانی بیان فرمائے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے۔اس کی جانب دل کا میلان ہوتا ہے۔اگر قلبی میلان ہی کسی کی جانب نہ ہو تو اس سے محبت کا دعویٰ ہی غلط ہے اور محبت کے بھی کچھ حدود وآداب ہیں۔

بعض روافض شیر خدا حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت میں اندھے اور پاگل ہو گئے۔وہ لوگ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو خدا ماننے لگے۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان لوگوں کو آگ میں جلا دیا۔

سننے میں آتا ہے کہ عصر حاضر میں بھی بعض لوگوں کو ان کے مریدین و معتقدین خدا کہتے ہیں،لیکن وہ منع نہیں کرتے ہیں،جب کہ خلیفہ راشد حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایسے لوگوں کو جلا دیا تھا۔

حضرت منصور انا الحق قدس سرہ العزیز کو بھی ان کے بعض غالی معتقدین خدا کہتے تھے،لیکن مجلس قضا میں حضرت منصور انا الحق نے انکار کیا اور کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں۔

آج تک یہ نہیں سنا گیا کہ کسی عاشق نبی اور محب رسول نے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو خدا کہا ہو۔دراصل بندہ اسی وقت غلط راہ پر جاتا ہے جب وہ اپنے رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ محبت دیگر مخلوقات سے کرنے لگتا ہے،یا اللہ تعالی سے زیادہ محبت مخلوقات سے کرنے لگتا ہے۔

نصاری اللہ تعالی سے زیادہ محبت حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے کرنے لگے،لہذا وہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا کا بیٹا اور ثالث ثلاثہ(تین خداؤں میں ایک خدا)ماننے لگے۔

عصر حاضر میں بھی الٹی گنگا بہ رہی ہے۔اپنے ممدوحین کی محبت میں مبالغہ کا آغاز ہو چکا ہے۔ابھی اپنے ممدوحین کو ولی اللہ اور محفوظ عن الخطا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسٹیجوں سے ولایت کا اعلان ہوتا ہے،حالاں کہ ولی کی شناخت ومعرفت اور ان کی ولایت کی شہادت نقیب اجلاس نہیں دیتے ہیں،بلکہ کوئی ولی صادق ہی دوسرے ولی کی ولایت کی گواہی دیتے ہیں۔مشہور مقولہ ہے:"ولی را ولی می شناسد"ولی کو ولی ہچانتا ہے۔

(4)جس طرح کسی کی محبت میں غلو بہت خطرناک امر ہے۔اسی طرح اللہ ورسول کی محبت سے غفلت بھی انتہائی خطرناک ہے۔روافض ودیابنہ اللہ ورسول کی محبت سے غافل ہوئے اور کفر وضلالت میں مبتلا ہوئے۔روافض نے حضرات ائمہ اہل بیت علیہم الرحمۃ والرضوان کی محبت میں غلو کیا،پھر ان ائمہ کرام کو معصوم اور حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے افضل ماننے لگے۔

دیابنہ کا حال بھی قابل اصلاح ہے۔یہ لوگ اپنے اکابر سے اللہ ورسول (عز وجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)کی بے ادبیاں سنتے دیکھتے رہے اور ان کو اپنا مقتدا وپیشوا بھی مانتے رہے۔اس سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ اپنے اکابر کی محبت میں غلو کے شکار ہیں۔

(5)اللہ ورسول،صحابہ وتابعین،علمائے کرام واولیائے عظام اور جملہ مومنین سے محبت کا حکم ہے،لیکن سب سے یکساں محبت کا حکم نہیں ہے۔

امام تقی الدین حصنی شافعی نے رقم فرمایا کہ جو کہے کہ مجھے اللہ تعالی سے زیادہ فلاں سے محبت ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ فلاں سے محبت ہے تو وہ مومن نہیں۔(کفایۃ الاخیار۔ص103.دار السلام مصر)

 واضح رہے کہ محبت میلان قلب کا نام ہے تو مومن کا میلان قلب سب سے زیادہ اللہ تعالی کی طرف ہو اور مخلوقات میں سب سے زیادہ میلان قلب حضور اقدس شفیع محشر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف ہو،اس کے بعد دوسروں کی طرف۔اس کے برعکس کرنا یقینا غلط ہے۔

اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ضرورت درپیش ہوئی،تب خامہ فرسائی کی جا رہی ہے۔اہل سنت وجماعت میں بھی دیوبندیوں کی طرح اکابر پرستی کا رجحان پیدا ہوتا جا رہا پے اور محبت خداوندی اور عشق مصطفوی کی وہ چمک دمک نظر نہیں آ رہی ہے جو آج سے تیس چالیس سال قبل نظر آتی تھی،حالاں کہ اللہ ورسول عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے غفلت بے شمار مفاسد کے دروازے کھولتی ہے،لہذا محبت الہی اور حب نبوی سے متعلق بھی تحریری و تقریری سلسلہ جاری رکھنا ہو گا۔

طارق انور مصباحی 

28:فروری 2025

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے