ہندوستان کے مفتی اعظم شیخ ابو بکر احمد مسلیار کی مداخلت سے ٹلی نیمیشا پریا کی پھانسی

*ہندوستان کے مفتی اعظم شیخ ابو بکر احمد مسلیار کی مداخلت سے ٹلی نیمیشا پریا کی پھانسی*
______________________________________

 مفتی محمد رضا قادری مصباحی نقشبندی
______________________________________
*نیميشا کیس کی حقیقت:_______*
یہ بات ہے ۲۰۰۸ ء کی جب صوبۂ کیرلا کی رہنے والی ایک نرس جس کا نام نیمیشا پریا (Nimisha Pirya)ہے، اچھی ملازمت کی تلاش میں یمن تک پہونچتی ہے ، یمن کے ایک بڑے ہسپتال میں ایک نرس کی حیثیت سے کام کرتی رہتی ہے۔ اس درمیان ہندوستان ہی میں ٹومی تھامس نام کے ایک شخص سے اس کی شادی ہو جاتی ہے ۔ بچپن سے ہی اس کا عزم تھا کہ وہ مدر ٹریسا کی طرح ایک سوشل اکٹویسٹ بنے، اس کے بچے بھی ہوتے ہیں ۔ کچھ دنوں بعد اس کا شوہر بھی یمن آجاتا ہے اور وہیں کام کرتا ہے، پھر اس کا شوہر کیرلا واپس آجاتا ہے ۔ ماہ و سال گزرتے ہوئے ۲۰۱۴ء آ جاتا ہے ۔
اس درمیان یمن میں سیاسی حالات خراب ہوتے ہیں۔ ملک میں سول وار جیسی حالت پیدا ہو جاتی ہے ، حوثیوں کی بغاوت کے سبب یمن میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے، ان حالات سے پریشان ہو کر نیمیشا بھارت لوٹنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس درمیان اس کا ایک دوست جس کا نام حنان تھا وه اسے مشورہ دیتا ہے کہ تم ہندوستان مت جاؤ ہم دونوں آدمی مل کر پارٹنرشپ میں یہیں ایک ہسپتال کھولتے ہیں ۔ نیمیشا تیار ہو جاتی ہے ۔ ہسپتال کھولنے کی راہ میں یمن کا ایک قانون حائل ہو جاتا ہے وہ یہ کہ یمن کے قانون کے مطابق کسی بھی غیر ملکی شخص کو یہاں کی زمین یا مکان پر مالکانہ حق حاصل نہیں ہوتا ۔ اسی قانون کے سبب وہ ہسپتال کھولنے سے مجبور ہوتی ہے ۔ اس درمیان اس کا دوست حنان مشورہ دیتا ہے کہ اگر تم یہاں کے کسی شہری کو کاغذ میں شوہر بنا لو، وہ صرف کاغذ میں تمہارا شوہر رہے گا تو کام بن جائے گا۔ ان تمام باتوں سے وہ اپنے شوہر ٹومی تھامس کو آگاہ کرتی ہے۔ واضح ہو کہ یمن میں ہاسپٹلوں کی حالت بہت اچھی نہیں ہے وہاں زیادہ تر دیسی جڑی بوٹی کے علاج پر لوگ اکتفا کرتے ہیں۔ جس کے پاس پیسہ زیادہ ہوتا ہے وہ باہر جاکر علاج کروا لیتا ہے ۔ اس کا شوہر نیمیشا سے کہتا ہے وہاں میرا ایک دوست ہے جس کا نام طلعت عبد المھدی ہے، میں اس سے بات کرتا ہوں۔ وہ اپنے دوست سے بات کرتا ہے اور کہتا ہے تم کاغذ میں نیمیشا کا شوہر بن جاؤ ۔ وہ تیار ہو جاتا ہے اور بدلے میں ہسپتال کے اندر کچھ حصے داری کی مانگ کر تا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اس کام کے عوض نیمیشا کا پاسپورٹ میں رکھ لوں گا ۔ اب معاملے میں ٹرننگ پوائنٹ یہیں سے آتا ہے۔ 
ادھر ہسپتال بہت اچھا چلنے لگتا ہے ۔ طلعت عبد المھدی کے دل میں لالچ آجاتی ہے اور وہ طے شدہ حصے سے زیادہ کا ڈیمانڈ کرتا ہے، علاوہ ازیں وہ جگہ جگہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ہسپتال میرا ہے اور نیمیشا میری بیوی ہے ۔ چونکہ قانونی طور پر وہ شوہر ہوتا ہے اس لیے وہ بلا خوف وخطر اس کا اظہار کرتا ہے۔
ادھر نیمیشا اس صورت حال سے دل برداشتہ ہوتی رہتی ہے، کچھ رپورٹوں کے مطابق طلعت اس کو جنسی تعلقات قائم کرنے پر بھی فورس کرتا ہے مگر نیمیشا انکار کر دیتی ہے اور سارا ماجرا اپنے شوہر سے بیان کرتی ہے، اس کا شوہر طلعت کو سمجھاتا ہے مگر وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آتا ہے، اس کا شوہر کہتا ہے تم واپس ہندوستان آجائو، مگر چونکہ اس کا پاسپورٹ طلعت کے قبضے میں ہوتا ہے اور وہ دینے کو تیار نہیں ہوتا ہے اب یہ لوگ ۲۰۱۶ء میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں، نیمیشا اس کے خلاف وہاں کے تھانے میں رپورٹ درج کراتی ہے اور ساری باتیں پیش کرتی ہے، یمن کے قانون کے مطابق طلعت کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جاتا ہے، یمن میں شریعت اسلامیہ کا قانون چلتا ہے وہ تفریق نہیں کرتا، مسلم اور غیر مسلم، شہری یا غیر شہری کے درمیان، طلعت یمنی شہری ہو کر بھی جیل پہونچ جاتا ہے۔ یہ واقعہ ۲۰۱۶ء میں پیش آتا ہے۔ 
ادھر یمن کے حالات مزید خراب ہوتے رہتے ہیں، یمنی حوثیوں کا کنٹرول دار الحکومت صنعا پر ہو جاتا ہے، یمن میں خانہ جنگی چل رہی ہوتی ہے، ۲۰۱۷ء میں طلعت جیل سے رہا ہوتا ہے، مگر ایک انتقامی جذبے کے ساتھ کہ وہ نیمیشا کو اس کا پاسپورٹ نہیں دے گا اور مزید پریشان کرے گا۔ 
نیمیشا اس سے پاسپورٹ مانگتی ہے مگر وہ نہیں دیتا ہے، اس درمیان حنان نیمیشا کا پارٹنر ایک پلان تیار کرتا ہے اور کہتا ہے تم نرس ہو اور طلعت جیل سے نکلنے کے بعد بیمار ہے، اسے روز انجکشن پڑتے ہیں، تم اس سے قربت بناؤ اور اعتماد میں لو۔ وہ اور حنان اس سے بار بار ملاقات کرتے ہیں یہاں تک کہ گذشته شکوے شکایات ختم ہونے لگتے ہیں ۔ جب کچھ ماحول بن جاتا ہے تب وہ کہتا ہے کہ اس کو بے ہوشی کا انجکشن دے کر اپنا پاسپورٹ نکال لو ۔ نیمیشا اس کو بے ہوشی کا انجکشن دیتی ہے مگر اس کا ڈوز اُوَر ہو جاتا ہے جس کے سبب اس کی موت ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بے ہوشی کے بجائے موت کا انجکشن ہو ۔ مگر رپورٹوں میں ایسا ہی بتایا گیا ہے۔اس کے مرنے کے سبب یہ دونوں پریشان ہوتے ہیں، اس کی لاش کو چھپا دیتے ہیں، پولس کو خبر ہوتی ہے اور نیمیشا کو گرفتار کر لیا جاتا ہے نیمیشا نے ساری باتیں صحیح صحیح بتا دیں کہ انجکشن میں نے ہی دیا ہے، بیہوشی کا انجکشن دیا تھا تا کہ میں اس سے اپنا پاسپورٹ لے سکوں، مگر غلطی سے اس کی جان چلی گئی، اقبال جرم کے بعد اس پر اور اس کے دوست حنّان پر ہائی کورٹ میں مقدمہ چلنے لگتا ہے۔
 ۲۰۲۰ء میں ہائی کورٹ میں نیمیشا کا جرم ثابت ہونے پر اسے پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے اور اس کے ساتھی حنان کو عمر قید کی، پھر یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں پہونچتا ہے اور وہاں بھی اس سزا کو برقرار رکھا جاتا ہے، اس درمیان ہندوستان کی حکومت، دفتر خارجہ اور ہندوستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے یمن کے سپریم کورٹ پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ پھانسی کی سزا کو ختم کرے۔ 
مگر ان سب کی کوششیں بے اثر ثابت ہوتی ہیں، کیوں کہ یمن کی حکومت برائے نام رہتی ہے عملا اس پر حوتیوں کا کنٹرول ہو چکا ہوتا ہے، اب ہندوستان کی حکومت حوثیوں سے بات کر نہیں سکتی کہ وہ حکومت کی باغی تنظیم ہے، جسے قانونی درجہ حاصل نہیں ہے، اس لیے ہندوستان کا دفتر خارجہ، یو، اے، ای اور سعودی عرب میں موجود اپنے سفارت خانے کے ذریعے عرب حکومتوں سے بات کرتا ہے کہ وہ حوثیوں سے بات چیت کرے مگر سعودی عرب ہو یا متحدہ عرب امارات ان کے تعلقات بھی حوثیوں سے ٹھیک نہیں تھے۔ واضح ہو کہ ۲۰۱۴ء میں یمن میں خانہ جنگی چھڑنے اور صنعا پر حوثیوں کے قبضہ کے بعد ہندوستان اپنا سفارت خانہ بند کردیتا ہے اور سفیر کو یمن سے واپس بلا لیتا ہے۔ 
بات چیت میں نتیجہ کوئی نہیں نکلتا، اتفاق یہ کہ سپریم کورٹ صنعا میں واقع ہے اور وہاں حوثیوں کا مکمل کنٹرول ہے، اور وہ شرعی قانون کے مطابق قصور وار کو سزائے موت دینا چاہتے ہیں۔ 
اب آخری دروازہ صدر جمہوریہ کا بچا ہوا تھا، یمن کا صدر چاہے تو اس کی سزا بدل سکتی ہے، نیمیشا کے گھر والے، اس کی ماں اور اس کے گھر کے لوگ صدر کے پاس رحم کی درخواست لے کر گئے، لیکن یہاں بھی بات نہیں بنی اور رحم کی درخواست رد کر دی گئی *"صدر رضا محمد السلام"* نے پھانسی کی سزا پر مہر ثبت کر دی۔ 
ادھر ہندوستانی حکومت، سپریم کورٹ اور دفتر خارجہ کی تمام کوششیں بے نتیجہ رہیں، ۱۶؍ جولائی؍ ۲۰۲۵ء اس کی سزاے موت کی تاریخ مقرر ہوگئی۔
نیمیشا کے گھر والے اس کی زندگی سے مایوس ہو چکے تھے، قانون کے سامنے بے بس ہو گئے تھے، نیمیشا نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا تھا، اس درمیان نیمیشا کے گھر والوں کو امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ 

*نیمیشا کیس میں کیرلاکے معمر عالم دین، گرینڈ مفتی آف انڈیا شیخ ابو بکر احمد کی انٹری:____*

نیمیشا کیس میں ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا جب اس مایوسی کے شب دیجور میں امید کی ایک کرن نظر آئی، اور وہ روشنی شیخ ابو بکر احمد موجودہ مفتیٔ اعظم ہندوستان ہیں، ممکن ہے کہ نیمیشا کے گھر والوں نے شیخ صاحب سے اس سلسلے میں ملاقات کی ہو مگر میرے پاس اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ محدث کیرلا، فقہ شافعی کے عظیم فقیہ، روحانی عربی اور ہندوستان کے عظیم روحانی پیشوا شیخ ابو بکر احمد (ولادت ۱۹۳۱ء) نے یمن کے مشہور سنی صوفی رہنماء بزرگ عالم دین شیخ حبیب عمر علی زین العابدین الجفری (ولادت: ۱۶؍ اپریل۔ ۱۹۷۱ء) سے رابطہ کیا جو یمن کے عظیم روحانی پیشوا اور صاحب اثر ورسوخ شیخ ہیں، وہ طبع فائونڈیشن یمن اور متحدہ عرب امارات میں ایک تحقیقی ادارہ کے بانی بھی ہیں۔ 
۲۰۰۹ء میں جارج ٹائون یونیورسٹی کے پرنسپل الولید بن طلال سینٹر فار مسلم کرسچن انڈر اسٹینڈنگ اور اردن کے رائل اسلامک اسٹریئیجک اسٹڈیز سینٹر نے انہیں دنیا کے ۵۰۰ با اثر مسلمانوں کی فہرست میں ۳۷ ویں نمبر پر رکھا، اس وقت وہ ۲۴ ویں نمبر پر ہیں، شیخ ابو بکر احمد صاحب کے ان سے ذاتی اور علمی نوعیت کے تعلقات دہائیوں سے قائم ہیں، یہ دونوں لمبے عرصے سے انٹر نیشنل کانفرنسوں میں ایک دوسرے سے ملتے رہے ہیں۔

*نیمیشا کی سزائے موت مؤخر کرنے کا فیصلہ:_______*

 المختصر شیخ صاحب نے شیخ جفری سے اس معاملے پر بات کی اور کہا اسلامی شریعت کی رو سے قتل کے بدلے میں تین آپشنز رکھے گئے ہیں:_____
*١:_________* ایک یہ کہ مقتول کے ورثہ قصاص میں قاتل کو قتل کر دیں۔

*٢:_________* دوسرا آپشن یہ ہے کہ قتل کے بجائے دیت (خوں بہا) جسے آج کی اصطلاح میں Blood mony کہا جاتا ہے دے کر قاتل کو سزا سے بچا لیا جائے۔

*٣:________* تیسرا آپشن یہ ہے کہ دیت لیے بغیر قاتل کو معاف کر دیا جائے۔
یہاں دوسری صورت پر عمل کیا جا سکتا ہے، دیت دے کر جان بچائی جا سکتی ہے، یہ قانون ِ اسلامی کے عین مطابق ہوگا۔ نیمیشا کے گھر والے خون بہا دینے کو تیار ہیں۔ 
آپ مقتول کے ورثہ کو خون بہا لینے پر راضی کریں، شیخ ابو بکر صاحب کی مداخلت کے بعد سید حبیب علی الجفری نے سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج سے اس سلسلے میں ملاقات کی اور نیمیشا کی سزائے موت کو مؤخر کرنے کی درخواست کی۔ شیخ حبیب علی الجفری اور ان کے حامیوں کے اثر ورسوخ کی بنیاد پر ۱۴؍ جولائی؍ ۲۰۲۵ء کو سپریم کورٹ نے ۱۶؍ جولائی کو ہونے والی سزا کو مؤخر کرنے کا اعلان کیا۔ 
جج صارم الدین مفضل اور رضوان احمد الوجرہ اسپیشل کرمنل کورٹ کے مسئول کی طرف سے ایک لیٹر ۱۹؍ محرم الحرام؍ ۱۴۴۷ء مطابق ۱۴؍ جولائی کو جاری کیا گیا جس میں کہا گیا: 
*الأخ / مدير الإصلاحية المركزيۃ بالأمانة تحیۃ طيبه و بعد نخطركم بناء على توجيه النائب العام بتأجيل تنفيذ حكم القصاص قبل المحكوم عليها / نیمیشا برا يا تومی توماس (هندية الجنسية ) في القضیة رقم (68) لسنة ٢٠١٨ م ج ج والتی كان قد تحدد موعد تنفیذ حکم اعدام المحكوم عليها / نیمیشا برايا تومي توماس إلی حين إشعار كم بموعد جديد۔*
اسپیشل کرمنل کورٹ کے جنرل سکریٹری کی ہدایت کے مطابق ہم آپ کو مطلع کرتے ہیں کہ ہندوستانی شہریت کی حامل نیمیشا پریا جس کے مقدمے کا نمبر (۶۸ )ہے اور جس کی سزائے موت کا وقت مقرر ہو چکا تھا اس کے قصاص کے فیصلے کے نفاذ کو اس وقت تک کے لیے مؤخر کیا جاتا ہے جب تک کوئی دوسرا فیصلہ نہ آجائے۔ 
یہ سزا مؤخر کی جاتی ہے اور دیت دے کر مقتول کے ورثہ کو راضی کرنے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے ۔ شیخ حبیب علی کورٹ کے وکیل یا جج کے ساتھ مقتول کے ورثہ سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کو گفتگو کی میز پر لے آتے ہیں ۔ مختلف سوشل میڈیائی ذرائع کے مطابق ہندوستانی روپے سے ۸؍کروڑ روپے دیت دینے کی پیش کش کی جاتی ہے مگر طلعت کے گھر والے اس پر راضی ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ کوششیں جاری ہیں دیکھیے آگے نتیجہ کیا نکلتا ہے ۔ اگر یہ سزاے موت ٹل جاتی ہے اور دیت دے کر معاملہ بن جاتا ہے تو اس کا بڑا مثبت اثر ہندوستان کے نفرتی ماحول پر پڑ سکتا ہے۔ جو فرقہ پرست عناصر ہر وقت ہند و مسلم کر کے یہاں کے پر امن ماحول کو خراب کرتے رہتے ہیں ان کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہوگا۔ اور اس سے یہ مؤثر پیغام جائے گا کہ جو سچا مسلمان ہو تا ہے وہ انسانیت کا سچا خیر خواہ بھی ہوتا ہے۔ وہ انسانی خدمت مذہب و ملت، رنگ و نسل، علاقہ اور زبان سے بالاتر ہو کر کرتا ہے ۔ مسلمانوں کی تاریخ اس طرح کے ہمدردانہ سلوک اور غیر مسلموں کے لیے بھی رواداری کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔
شیخ ابوبکر احمد کی مداخلت سے وقتی طور پر سزا کے ٹل جانے سے ہندوستان کے باشندوں کو اتنا تو ضرور معلوم ہو گیا ہے کہ ہندوستان کے ایک مذہبی رہنما کا پاور اور اثر و رسوخ کتنا ہے۔ اگر آج ہندوستان کی حکومت یہاں کے صوفی علما اور روحانی پیشوائوں سے بہتر مشاورت کرے تو عرب ملکوں کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔ اگر اس کی سزاے موت برقرار رکھی بھی جاتی ہے تو بھی شیخ صاحب کی کوششیں رائگاں نہیں جائیں گی بلکہ فرقہ پرست عناصر کو اس سے سبق لینے کا موقع ملے گا۔
راقم سطور نے سوشل میڈیا پر شیخ صاحب کے حوالے سے دیے گئے کمنٹس کو پڑھنا شروع کیا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ سبھی ہندوں نے شیخ صاحب کے اس عمل کو سراہا ہے اور انہیں ہندوستان کا عظیم ، دانشور اور انسانیت سے محبت کرنے والا کہا ہے۔ اور مسلمانوں کے تعلق سے نفرت پھیلانے والے عناصر کی مذمت کی ہے۔
برادران وطن کا بڑا طبقہ وہ ہے جو مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتا ہے ان کے آپس میں دنیاوی، کاروباری تعلقات ہیں، ایک معمولی طبقہ جو دس فیصد سے بھی کم ہے جس کی سوچ زائنزم (Zionism) اور نازی ازم (Nazism ) سے متأثر ہے وہی فرقہ پرستی کے زہر کو عام لوگوں میں خاص طور سے یہاں کے ناخواندہ اور جاہل لوگوں میں بھرنے کی کوش کر رہے ہیں۔شیخ صاحب کے اس عمل نے ہندوستانی معاشرے پر ایک اچھا اثر ڈالا ہے، شمالی ہند کے لوگوں کو بالخصوص شیخ ابو بکر احمد صاحب کی تعمیری اور علمی وعملی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں، اگر لوگ ان کی تعلیمی اصلاحات اور بین المذاہب ہم آہنگی کے میدان میں کی جانے والی کوششوں سے واقف ہو جائیں تو ان کا اسیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ 

*کون ہیں شیخ ابو بکر؟___________*

اس اکیلے ایک بندے نے نصف صدی کو متأثر کیا ہے، ان کی دینی، علمی اور سماجی خدمات پر آنے والے وقت میں درجنوں پی ایچ ڈی اور ایم فل کی تھیسس لگی جائیں گی۔ وہ اس وقت آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کے جنرل سکریٹری، اسلامک ایجوکیشنل بوڑ آف انڈیا کے صدر، مرکز الثقافۃ السنیہ اور نالج سٹی (کیرلا) کے بانی اور چانسلر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں مفتیٔ اعظم ہندوستان تاج الشریعۃ علامہ اختر رضا خان قادری ازہری رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کر جانے کے بعد انہوں نے ۲۴؍ فروری ۲۰۱۹ء کو ہند کے دسویں مفتی اعظم کی حیثیت سے اس منصب کو سنبھالا۔ 
جامعہ مر کز الثقافۃ السنیہ جنوبی ہند میں وہ اسلامی یونیورسٹی ہے جہاں اس وقت ۲۰۰۰۰؍ (بیس ہزار) سے زائد طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ 

*شیخ صاحب کے نظریات:_______*

شیخ صاحب اسلامی شدت پسندی کے مخالف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ داعش جیسے جنگجو گروہ اسلام کی شبیہ کو خراب کر رہے ہیں، انہوں نے ۲۰۱۴ء میں داعش کے خلاف فتویٰ بھی جاری کیا تھا، شیخ صاحب معتدل سنی، صوفی نظریے کے مبلغ ہیں، انہیں کئی بار دنیا کی پانچ سو با اثر شخصیات کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے، مصر، سعودی عرب، دبئی، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، قطر، عمان، اردن، شام ویمن کے کثیر مرتبہ دورے کیے، اسی طرح مغربی ممالک، افریقی ممالک اور ریاستہائے متحدہ امریکہ ان کے دوروں میں متعدد بار شامل رہے، اس مختصر سی تحریر میں ان کی زندگی کے ایک پہلو پر بھی کما حقہ روشنی ڈالنا مشکل ہے، ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ آج تک بخاری شریف کا درس طلبہ کو دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تقریبا پچاس سالوں سے قائم ہے، وہ کئی درجن کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ 
تفصیل کے لیے فقیر کی کتاب *’’نیپال میں اسلام کی تاریخ‘‘* کا مطالعہ کریں۔ 
شیخ ابو بکر ہندوستانی مسلمانوں کی عظمت کا استعارہ، ریاست کیرلا کے عظیم معمار، دور اندیش قائد، زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھنے والا مفکر، ہندوستان کی شان اور فخر ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تا دیر قائم رکھے۔ آمین 

تحریر :____مفتی محمد رضا مصباحی، قادری، نقشبندی 
چیف ایڈیٹر: عربی ماہنامہ الفجر،وبانی ومہتمم ہفت روزہ نیپال اردو ٹائمز
شب ۲۲؍ محرم الحرام ؍۱۴۴۷ھ
۱۸؍ جولائی؍ ۲۰۲۵ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے