اعلٰی حضرت: عشقِ رسولﷺ کا مینارِ نور

اعلٰی حضرت: عشقِ رسولﷺ کا مینارِ نور

از: محمد مقتدر اشرف فریدی، اتر دیناج پور، بنگال۔

اللہ کریم کا بے پایاں فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور ایمان جیسی عظیم دولت سے سرفراز فرمایا۔ اس خاکدانِ گیتی پر ہر روز بے شمار انسان آتے ہیں اور اپنی مدتِ حیات پوری کر کے دارِ فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اکثر لوگ وقت کے گرداب میں گم ہو جاتے ہیں، مگر اسی کائناتِ رنگ و بو میں کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں زمانہ کبھی فراموش نہیں کرتا۔ ان کی زندگیاں دین کی خدمت، سنت کی اشاعت اور امت کی رہنمائی میں بسر ہوتی ہیں۔ ان کے علم و فضل سے زمانہ فیضیاب ہوتا ہے اور یہی نفوسِ قدسیہ بعد از وفات بھی زندہ و جاوید رہتے ہیں۔

ان ہی عظیم المرتبت ہستیوں میں ایک درخشاں نام امامِ اہلِ سنت، عاشقِ رسول، مجددِ دین و ملت، فقیہِ وقت، متبحر عالمِ دین، محدثِ بریلوی، الشاہ امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ آپ کی علمی، فقہی، روحانی اور تحریکی خدمات نے برصغیر کی تاریخ میں ایک انمٹ نقش چھوڑا۔ آپ کی ذات علم و عرفان، حلم و تقویٰ، عشق و ادب اور حق گوئی و بیباکی کا حسین مرقع تھی۔ یہی وجہ ہے کہ برسہا برس بعد بھی آپ کے علم و فضل کا چرچا ہر سمت ہے، اور یہ یقیناً اللہ کریم کا فضلِ عظیم ہے۔

ولادتِ باسعادت

اعلیٰ حضرت کی ولادت 10 شوال المکرم 1272ھ مطابق 14 جون 1856ء بروز ہفتہ بوقتِ ظہر، محلہ جسولی، بریلی شریف (یوپی) میں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر اسلامی تہذیب کے زوال کا شکار تھا اور گمراہیوں کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ایسے دور میں اللہ تعالیٰ نے اس مردِ درویش کو دین کی بقا و تحفظ کے لیے منتخب فرمایا۔

خداداد ذہانت اور علمی کارنامے

جب اللہ تعالیٰ کسی کو دینی خدمت کے لیے چنتا ہے تو اسے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے صرف چار سال کی عمر میں قرآنِ مجید ناظرہ مکمل کیا۔ چھ سال کی عمر میں میلاد شریف کے موقع پر عام مجمع میں فصیح و بلیغ تقریر فرما کر سامعین کو متحیر کر دیا۔ آٹھ سال کی عمر میں عربی زبان میں "ہدایۃ النحو" کی شرح تحریر کی اور صرف ایک ماہ میں قرآنِ مجید حفظ کر لیا۔ چودہ سال کی عمر میں تمام مروّجہ علوم و فنون سے فراغت حاصل کر کے دستارِ فضیلت سے سرفراز ہوئے۔

آپ کو تقریباً پچپن علوم و فنون پر عبور حاصل تھا۔ آپ کی ذات علومِ کسبیہ و لدنیہ کا حسین امتزاج تھی۔ یہ سب خداداد صلاحیتیں اس لیے عطا کی گئیں کہ دین و سنیت کا تحفظ، باطل کا رد اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا پیغام عام ہو۔

اعلیٰ حضرت کے زمانے میں فتنہ و فساد کا غلبہ تھا، گستاخانِ رسالت سرگرم تھے، شانِ الوہیت و شانِ رسالت میں توہین و تنقیص کی جا رہی تھی، ایمان کے لٹیرے اپنے باطل عقائد کی نشر و اشاعت کر رہے تھے، بدعات کا زور تھا اور گمراہ تحریکیں ایمان کو کھوکھلا کر رہی تھیں۔ ایسے پر فتن ماحول میں آپ استقامت کی چٹان بنے، باطل کی کمر توڑ دی، غدارانِ دین کے مکر کا پردہ فاش کیا، بدعقیدگی کے ہر فتنے کا علمی و فکری رد کیا اور امت کو قرآن و سنت، اہلِ بیت و صحابہ کی محبت اور شرعی اعمال کی طرف مائل کیا۔ آپ نے اپنی تحریروں، فتاویٰ، خطابات اور رسائل کے ذریعے ایسا جہادِ قلمی کیا کہ باطل کے ایوان لرز اٹھے۔

عشقِ رسول ﷺ: اعلیٰ حضرت کی پہچان

اعلیٰ حضرت کی حیاتِ مبارکہ عشقِ رسول اکرم ﷺ سے لبریز تھی۔ آپ فنا فی الرسول تھے۔ آپ کا قلب و جگر، قلم و قدم، ہر شے محبوبِ خدا ﷺ کی عظمت کا ترجمان تھی۔ آپ کی گفتگو میں محبتِ رسول ﷺ کی خوشبو اور تحریروں میں مدحتِ مصطفیٰ ﷺ کی چاشنی صاف جھلکتی تھی۔

آپ کی زندگی کا ہر لمحہ، ہر قلمی کاوش اور ہر علمی کارنامہ اسی محبتِ رسول ﷺ کی روشنی میں ڈھلا ہوا تھا، گویا آپ کی روح کا مرکز و محور ہی عشقِ مصطفیٰ ﷺ تھا۔

آپ کا مشہور نعتیہ دیوان "حدائقِ بخشش" عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا روشن مینار ہے، جس کا ہر مصرعہ حبِ رسول ﷺ کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

جان ہے عشقِ مصطفیٰ، روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا، وہ نازِ دوا اٹھائے کیوں

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ صرف رسول اللہ ﷺ ہی نہیں، بلکہ آپ ﷺ کی آل و اصحاب، شہر و نشانیوں اور مدینہ منورہ کی مٹی اور ہواؤں سے بھی بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ساداتِ کرام کی عزت و تعظیم کو اپنے ایمان کا حصہ مانتے تھے۔

یہی محبتِ رسول ﷺ آپ کی زندگی کا اصل سرمایہ اور آپ کے ہر علمی و عملی کام کا محرک تھی۔ یہی جذبہ تھا جس نے آپ کو باطل کے مقابلے میں استقامت کی چٹان بنا دیا اور امت کو عشقِ مصطفیٰ ﷺ کے جام سے سیراب کیا۔

تعلیمات: مشعلِ راہ

اعلیٰ حضرت نے اپنے اقوال و افعال سے امت کو یہ سبق دیا کہ محبتِ رسول ﷺ ہی اصل دین ہے، اسی میں نجات ہے اور اسی میں روحانیت کی معراج ہے۔ آپ کے خطبات، فتاویٰ، رسائل اور نعتیہ اشعار آج بھی ہمارے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ آپ کی تعلیمات نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایمان، عمل، محبت اور سیرت کے راستے پر گامزن کیا۔

وصالِ پرملال

25 صفر المظفر 1340ھ مطابق 28 اکتوبر 1921ء بروز جمعہ بوقت 2:38، عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا یہ مینارِ نور اور مجددِ وقت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ کر اپنے رب سے جا ملے۔

آپ کا ابدی پیغام درج ذیل شعر کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گا:

انہیں جانا، انہیں مانا، نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد، میں دنیا سے مسلمان گیا

اعلیٰ حضرت ایک ایسی عبقری شخصیت تھے جنہوں نے دین کو فکری، علمی اور عملی سطح پر وہ کچھ عطا کیا جس کی مثال صدیوں میں ایک بار ملتی ہے۔ آپ کی زندگی، کردار، فرمودات اور تعلیمات سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ کامیابی کا راستہ سنتِ رسول ﷺ، محبتِ رسول ﷺ اور تحفظِ ایمان سے ہو کر گزرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے علم و فیضان سے ہمارے قلوب و اذہان کو منور فرمائے۔
آمین بجاہِ النبی الامین ﷺ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے