علمائے حق اور تحریکِ آزادی کا سنہرا باب

علمائے حق اور تحریکِ آزادی کا سنہرا باب

از: محمد مقتدر اشرف فریدی ضیائی، اتر دیناج پور، بنگال۔

15 اگست 1947ء کا دن ہندوستان کی تاریخ کا ایک عظیم اور یادگار دن ہے۔ یہ وہ دن تھا جب ہمارا وطن صدیوں کی غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی صبح کا پہلا سانس لے سکا۔ یہ آزادی ہمیں کسی تحفے کے طور پر نہیں ملی، بلکہ یہ لاکھوں شہدا کے خون، جانثار مجاہدین کی قربانیوں اور علمائے دین کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

تحریکِ آزادی میں علمائے اہلِ سنت کا کردار تاریخ کے روشن ابواب میں سے ہے۔ یہ وہ مقدس ہستیاں تھیں جنہوں نے دین و ایمان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ وطنِ عزیز کی آزادی کو بھی اپنا مشن بنایا۔ ان کی قربانیاں آج بھی ہماری نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
یقیناً وطنِ عزیز کی آزادی کے لیے علمائے کرام نے ایسی خدمات پیش کیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ انگریزوں کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے بے شمار علمائے کرام نے حصہ لیا اور کلیدی کردار ادا کیا۔ ذیل میں چند جلیل القدر علما کا تذکرہ پیش ہے:



علامہ فضلِ حق خیرآبادی رحمہ اللہ
1857ء کی جنگِ آزادی کے فکری رہنما اور برصغیر کے ممتاز عالمِ دین تھے۔ علومِ عقلیہ و نقلیہ میں آپ کو امامت کا درجہ حاصل تھا۔ جب انگریز ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہے تھے اور بعض لوگ ان کی وفاداری کے فتوے جاری کر رہے تھے، اس وقت دہلی کی جامع مسجد سے جہاد کا پہلا فتویٰ آپ ہی کی زبانِ حق ترجمان سے جاری ہوا۔
یہ فتویٰ پورے ملک میں گونج اٹھا، مجاہدین کے حوصلے بلند ہوئے اور دہلی میں ہزاروں سپاہی جمع ہو گئے۔ مگر صفوں میں موجود غداروں نے آپ کی سرگرمیوں کی خبر انگریزوں تک پہنچا دی۔ آپ گرفتار ہوئے اور انڈمان کے جزیرۂ کالا پانی جلاوطن کر دیے گئے، جہاں 1861ء میں اسی جلاوطنی کے عالم میں وفات پائی۔



مفتی صدر الدین آزردہ دہلوی رحمہ اللہ
دہلی کے مفتیِ اعظم، جلیل القدر فقیہ، شاعر اور مصلح تھے۔ اگرچہ براہِ راست میدانِ جنگ میں شریک نہ تھے، مگر علمی رہنمائی، فکری بیداری اور مجاہدین کی اخلاقی پشت پناہی میں پیش پیش رہے۔ آپ کا گھر انقلابی مشاورت کا مرکز تھا۔
قلم و زبان دونوں سے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا۔ آپ کی ولولہ انگیز تقریریں عوام اور سپاہیوں میں جوش و خروش پیدا کر دیتی تھیں۔ انگریز آپ کے اثر و رسوخ سے خوف زدہ ہو گئے، چنانچہ آپ کو عہدے سے برطرف کر کے نظر بند کر دیا، لیکن آپ نے سرِ تسلیم خم نہ کیا۔



علامہ احمد اللہ مدراسی رحمہ اللہ
بلند پایہ عالمِ دین، شیخِ طریقت اور نڈر مجاہد تھے۔ جب آپ نے انگریزوں کو ہندوستانی عوام کی عزت و حرمت سے کھیلتے دیکھا تو مریدوں اور رفقا کی ایک مضبوط جماعت تیار کی اور علمِ جہاد بلند کیا۔
آپ کی قیادت میں حریت پسندوں کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے، مگر ایک بدعہد شخص کی غداری نے تمام منصوبے خاک میں ملا دیے اور آپ شہید کر دیے گئے۔ آپ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ آزادی کی تحریک کو صرف مسلمانوں تک محدود نہ رکھا، بلکہ ہندو رہنماؤں کو بھی شریک کیا تاکہ یہ جدوجہد پورے ہندوستان کی مشترکہ آواز بن سکے۔



علامہ عنایت احمد کاکوری رحمہ اللہ
انگریزوں کے تعلیمی اور مذہبی نظام کی تباہ کن سازشوں کو بھانپ کر ان کے خلاف بھرپور آواز بلند کی۔ وعظ و نصیحت، تحریر و تقریر اور عوامی رابطے کے ذریعے سیاسی و مذہبی بیداری پیدا کی۔ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ایمان کی حفاظت اور وطن کی آزادی دونوں یکساں اہم ہیں۔


مفتی سید کفایت علی کافی مرادآبادی رحمہ اللہ
چشم و چراغِ خاندانِ رسالت، قادرالکلام شاعر، جید عالم اور شجاع مجاہد تھے۔ آپ کے ولولہ انگیز اشعار نے عوام میں جوش اور بیداری کی لہر دوڑا دی۔
1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران گرفتار ہوئے، قید میں سخت اذیتیں برداشت کیں، مگر استقلال پر قائم رہے۔ آخرکار مرادآباد کے ایک چوراہے پر تختۂ دار پر لٹکا دیے گئے۔ اس وقت چہرے پر مسکراہٹ تھی اور زبان پر یہ اشعار جاری تھے:

کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ ﷺ کا دین حسن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ و لیکن حشر تک
نعت حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا۔

علامہ سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی رحمہ اللہ اتنے بڑے عاشقِ رسول تھے کہ تختۂ دار بھی آتشِ عشق سرد نہ کرسکا۔ یہ اشعار آپ کی رسولِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے والہانہ محبت و عقیدت کی گواہی دیتے ہیں۔


پیغامِ آزادی اور عہدِ وفا
یومِ آزادی محض خوشی کا دن نہیں، بلکہ یہ اس عہد کی تجدید کا لمحہ ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد رکھیں اور ان کی امانت کی حفاظت کریں۔ یہ وطن علما، شہداء اور مجاہدین کے خون سے سینچا گیا ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ اس آزادی کی قدر کریں، اتحاد و اتفاق کو فروغ دیں اور علمائے اہلِ سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر دین و وطن دونوں کی خدمت کریں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے