غلام مصطفٰی رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
1600ء میں انگریز ہندستان آئے، تجارتی تعلق بہانہ تھا، اقتدار نشانہ تھا، سازش ان کی تاریخ کا فسانہ تھی، ان کی سرشت کا حصہ تھی، ابتدا میں انھوں نے بہ ظاہر تجارتی معاملات سے ہی کام رکھا، پھر حکومتی نظام پر نظریں جمائیں، اہم معاملات میں مداخلت شروع کی، انتشار کو بڑھایا، رائی کا پربت بنایا، جسے مغلوں کے خلاف دیکھا اسے سازش پر اُبھارا، اسی پر بس نہ کیا، علاقائی حکمرانوں کو بغاوت پر اکسایا، کہتے ہیں کہ دشمن کا مخالف بھی دوست ہوتا ہے، مغل مسلمان تھے، فرقہ پرست جو خود کو ہندوستانی بھی کہتے تھے، انھیں یہ چبھن تھی کہ مسلمان آئے، جلد ہی کام یاب ہوئے، اسلام آیا، ملک میں چھا گیا، امارت و حکومت کا نظام بھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا، ان کی حکمت و دانش نے رعایا کے دل جیت لیے، ان کے عدل و دیانت نے ذہنوں کو اسلام کی سچائی کے قبول پر آمادہ کیا۔
انگریز کی کامیابی میں ان فرقہ پرستوں کا زیادہ ہاتھ تھا، سازش کا زاویہ پھیلتا گیا، مغل اقتدار کم زور ہوتا گیا، ایک وقت آیا جب غداروں کے سہارے انگریز ملک پر قابض ہو گئے۔ مغل حکومت کا آخری چراغ بہادر شاہ ظفر کی شکل میں ٹمٹمایا، پھر وہ رنگون میں بجھ گیا۔ یہاں کے سفید و سیاہ کے انگریز مالک بن بیٹھے۔ نواب سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو شہید عزم محکم کے ساتھ بلاؤں کو پسپا کرنے کے لیے اپنے اپنے عہد میں اٹھے، لیکن غداروں کے سبب اپنے مشن میں کام یاب نہ ہو سکے، دہلی میں علما و امرا نے مشاورت کی، ایک استفتا تیار کیا گیا، جسے علامہ فضل حق چشتی خیرآبادی (رحلت در انڈمان ۱۸۶۱ء) نے مرتب کیا، دہلی کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد ایک تقریر کی، انگریز کے مظالم کے خلاف۔ اس تقریر نے جذبۂ حریت کو بیدار کر دیا، آزادی کے جذبات تازہ ہو گئے، مسلمانوں کی ۹۰؍ ہزار سپاہ دہلی میں جمع ہو گئی، دہلی سے آگرہ تک، اودھ سے شاہ جہاں پور تک جذبۂ جنوں خیز پیدا ہو گیا، جس کی لہر پورے ملک میں پھیلی، بالآخر ۱۸۵۷ء میں میرٹھ میں ہندُستانی فوج نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دی، آزادی کا نقارہ بج چکا تھا، آگرہ، دہلی، میرٹھ، شاہ جہاں پور، روہیل کھنڈ اور لکھنؤ میدان جنگ میں بدل گئے، انگریز دنگ رہ گیا، کہ مسلمان سویا تھا کیسے جاگ گیا؟
جنگ بہ ظاہر ناکام رہی لیکن اس کی چنگاری سلگتی رہی، عہد بہ عہد حریت کی فکر منتقل ہوتی رہی، اور ۱۹۴۷ء میں بالآخر ملک آزاد ہوا، انگریز رخصت ہوا، اپنی فکر چھوڑ گیا، حکومت مسلمانوں سے لی؛ لیکن اپنے ہم خیالوں کو لوٹا گیا، مسلم دشمنی کے جرثومے پنپتے رہے، مسلم معاشرے میں پھیلتے گئے، مسلمانوں کے حقوق چھینے گئے، فرقہ وارانہ فسادات کروا کر مسلم کشی کی جاتی رہی،ملک میں دیکھا گیا کہ مسلمان آزادی کے بعد اپنی محنت سے خود کفیل بنتا جا رہا ہے، چین کی زندگی جی رہا ہے، تو الزامات کی بارش کی گئی، انگریز نے دنیا میں اسلام کے بڑھتے اثرات سے بوکھلا کر ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا راگ الاپا، اِدھر ہند میں ان کے ہم نوا بھی اسلامی ٹیررزم بولنے لگے، دہشت کا کھیل فرقہ پرست کھیلتے؛ بدنام مسلمان ہوتے، جس طرح ۱۸۵۷ء میں چند افراد مثل قادیانی و گستاخ خریدے گئے، ان کے ذریعے بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں گستاخیاں کروائی گئیں اور انھیں کے ذریعے مسلمانوں میں گروہ بندی کی گئی، ایسے ہی بعض مسلم جیسے نام کے حامل گروپ لشکر طیبہ وغیرہ امریکہ نے تیار کیے، جن کا رشتۂ فکر ۱۸۵۷ء میں انگریز کے حامیوں سے جا ملتا ہے، انھوں نے اپنے وضع کردہ اصولوں کو اسلام سے منسوب کیا، انگریز نے ان کی معاونت کی، ان کی آڑ میں امریکہ و برطانیہ اور ان کے حواری اسلام کو بد نام کرنے لگے، ہمارے ملک کے فرقہ پرست انھیں کی آواز میں آواز ملانے لگے، اور اس طرح مسلمانوں کو رُسوا کرنے کی مہم چھیڑ دی گئی۔
۱۸۵۷ء میں ہی انگریز نے جان لیا تھا کہ مسلمان کو کم زور کرنا ہے تو مشرکین کو اپنے ساتھ ملا لو۔ اور ہوا بھی یہی، مشرکین کے ایما پر نان کو آپریشن تحریک چلائی گئی، جس کا نتیجہ مسلمانوں کی معاشی وتعلیمی تباہی کی صورت میں بر آمد ہوا:
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
ہو بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
انگریز نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی، وہ چاہتا تھا کہ مسلمان دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لائق نہ رہیں۔ اس نے مسلمانوں کے مقابل ہندوؤں کی مدد کی اس لیے مسلمان دونوں طرف سے سازش کا شکار تھے، ایسے میں تحریک آزادی کی آڑ میں مسلمانوں کی اسلامی شناخت ختم کرنے اور ایمان کو کمزور کرنے کے لیے ایک تحریک چلائی گئی اور ہندوؤں سے ایسے اتحاد و وِداد پر زور دیا گیا جس کے نتیجے میں شرکیہ مراسم مسلم سوسائٹی میں داخل ہونے لگے۔ ۱۹۲۰ء میں گاندھی کے ایما پر تحریک ترک موالات (Non Co-Operation) چلائی گئی، کہ مسلمان انگریز کی مخالفت میں اپنی ملازمتیں چھوڑ دیں۔ امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ نے اس کی مخالفت کی؛ اس لیے کہ اسلامی شریعت کی رو سے یہ کام غلط تھا، ترک موالات کے نتیجے میں مسلمان معاشی بد حالی کا شکار ہوئے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں، بہر حال امام احمد رضا اور ان کے محبین و تلامذہ نیز مسترشدین نے اس تحریک کی عملی طور پر مخالفت کی۔ علی گڑھ میں ترک موالات کی مخالفت میں ڈاکٹر ضیاء الدین (وائس چانسلر م۱۹۴۷ء) مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی اور مولانا سید سلیمان اشرف بہاری (م۱۹۳۵ء) اور ان کے چند احباب سرگرم عمل رہے۔ اس تحریک کا طوفان مسلم یونی ورسٹی میں بھی داخل ہوا، ڈاکٹر ضیاء الدین نے امام احمد رضا کی اسلامی فکر کا احترام کرتے ہوئے ترک موالات کی مخالفت کی اور اپنے دانش مندانہ اقدام سے یونی ورسٹی کو سنبھالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ حامیانِ ترک موالات کی کم ظرفی پر علی گڑھ کے فارغ نواب مشتاق احمد خاں اپنا مشاہدہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
> *’’ان تین چار ہنگاموں کے بعد مسلمان یہ عام طور پر محسوس کرنے لگے کہ انھوں نے جذبات کی رو میں بہہ کر اپنا ہی نقصان کیا۔ علی گڑھ میں تعلیمی سال کی بربادی ہوئی، نظم و ضبط متاثر ہوا اور اس سارے دور میں بنارس ہندو یونی ورسٹی پر کوئی آنچ نہ آئی۔‘‘*
(کاروانِ حیات لاہور ۱۹۷۴ء، ص۸۸)
آخرالذکر اقتباس سے مشرکین کی شاطرانہ ذہنیت کا اندازا بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ انگریز کا اصل دشمن مسلمان تھا، مشرکین پر وہ حد درجہ مہربان تھے، مجاہد آزادی علامہ فضل حق نے لکھا تھا:
> *’’ہندوؤں میں سے صرف وہ مارے گئے جن کے متعلق دُشمن و معاند ہونے کا یقین تھا… ادھر نصاریٰ نے ماتحت ہندو رؤسا کو پیغام بھیجا کہ جو شخص بھی (مسلمان) تمہارے علاقہ میں سے گزرے اسے پکڑ لیا جائے۔‘‘*
(الثورۃ الہندیہ، ص۵۱، طبع مبارک پور)
مسلمان آزادی کی لڑائی میں اگر خود کفیل ہوتے تو شاید آزادی کے بعد حکومت میں کچھ وقار ضرور حاصل کر لیتے لیکن ہوا یہ کہ مشرکین سے اتحاد نے مسلمانوں کو کہیں کا نہ چھوڑا، اس دور میں سماجی مصلح اور بے مثال سیاسی تدبر کے مالک امام احمد رضا نے مسلمانوں کو انگریزوں کے ساتھ ساتھ مشرکین سے بھی بچنے کی تلقین کی تھی کہ نہ انگریز تمہارے خیر خواہ ہیں نہ مشرک۔ آج ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی آنکھیں کھولیں، آزادی کو سات دہائیاں گزر گئیں لیکن مسلمان فرقہ پرستوں کا آج بھی نشانہ بن رہے ہیں اور آزادی سے جینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
٭٭٭
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں