غوث اعظم کی صبر آموز زندگی

غوث اعظم کی صبر آموز زندگی 

از: محمد مقتدر اشرف فریدی، اتر دیناج پور، بنگال۔

اسلام میں صبر کی بڑی فضیلت ہے۔ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر صبر کی اہمیت و عظمت بیان ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ صابروں کے ساتھ ہے اور یقینا اس نے اپنی بارگاہ میں صبر کرنے والوں کے لیے بے حساب اجر رکھا ہے۔ اللہ کے محبوب بندے اپنے رب کی طرف سے عطا کردہ حکمت و رحمت پر مبنی مصائب و مشکلات کا بھی خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہیں۔ وہ صبر و شکر کا پیکر بن کر مولیٰ کریم کی قربت حاصل کر لیتے ہیں۔

قطبِ ربانی، غوثِ صمدانی، قندیلِ نورانی، محبوبِ سبحانی، سلطان البغداد، سیّد الافراد، حضور سیّدنا سرکار غوثِ اعظم الشیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوری زندگی صبر و شکر سے لبریز ہے۔ آپ نہایت صابر اور مستقل مزاج تھے۔ زمانۂ طالب علمی میں آپ نے انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کیا۔ شدید ترین مشقتیں اور تکلیفیں اٹھائیں۔ بھوک کی شدت سے دوچار ہوئے اور مسلسل فاقوں سے بھی گزرے، مگر آپ کے پائے استقامت میں کبھی لغزش واقع نہ ہوئی۔ آپ نے ہر مصیبت اور تکلیف کا خوش دلی اور ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اور آپ کی زبانِ فیض ترجمان پر کبھی حرفِ شکایت نہ آیا۔

حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "صبر یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ادب رکھا جائے اور اس کے فیصلوں کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا جائے۔ اللہ کے لیے صبر یہ ہے کہ بندہ اس کے امر کو ادا کرے اور اس کی نہی سے باز رہے۔" (بہجة الاسرار مترجم، صفحہ: 351)

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزید ارشاد فرمایا: "ایک بوڑھے شخص نے خواب میں مجھ سے سوال کیا کہ وہ کون سی چیز ہے جس کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے؟ میں نے جواب دیا: قربِ الٰہی کی ایک ابتدا ہے اور ایک انتہا۔ اس کی ابتدا تقویٰ اور پرہیزگاری ہے اور اس کی انتہا تسلیم و رضا اور توکل ہے۔" (فتوح الغیب مترجم، صفحہ: 126)

آپ کے صبر و استقلال کی ایک جھلک اس وقت سامنے آئی جب بغداد میں خوفناک قحط پڑا۔ آپ کو سخت مصائب و آفات کا سامنا کرنا پڑا۔ فاقے پر فاقے ہوتے گئے، یہاں تک کہ بھوک کی شدت سے بے تاب ہو کر دریائے دجلہ کی طرف تشریف لے گئے تاکہ کھانے پینے کی کوئی چیز میسر آ جائے، مگر جس طرف جاتے مساکین کا ہجوم پاتے اور کھانے کے قابل کوئی چیز نہ ملتی۔ یہاں تک کہ جب آپ بھوک سے نڈھال ہو گئے تو بغداد کی ایک مسجد میں داخل ہو کر ایک گوشے میں بیٹھ گئے۔

اسی دوران ایک فارسی جوان مسجد میں نان اور بھنا ہوا گوشت لے کر آیا اور کھانے لگا۔ اتفاقاً اس کی نظر آپ پر پڑی تو اس نے کہا: "آؤ بھائی! تم بھی شریک ہو جاؤ۔" آپ نے پہلے انکار فرمایا مگر اس کے اصرار پر دعوت قبول کر لی۔ اس نے آپ کا حال پوچھا تو آپ نے فرمایا: "میں جیلان کا باشندہ ہوں اور میرا مشغلہ طلبِ علم ہے۔" اس نے کہا: "میں بھی جیلان کا ہوں۔ کیا آپ جیلان کے ایک نوجوان عبد القادر کو جانتے ہیں؟" آپ نے فرمایا: "وہ تو میں ہی ہوں۔" یہ سن کر وہ جوان بے چین ہو گیا اور عرض کیا: "میاں سید زادے! خدا کی قسم میں نے آپ کو بہت تلاش کیا مگر نہ مل سکے۔ بغداد میں میری ساری رقم خرچ ہو گئی۔ آپ کی والدہ نے آپ کے لیے چند درہم بھیجے تھے جو میرے پاس امانت تھے، لیکن آج جب کہ تین دن سے مسلسل فاقوں سے جاں بلب تھا تو میں نے آپ کی امانت سے یہ کھانا خریدا ہے۔ یہ کھانا آپ ہی کا ہے، اب آپ خوشی سے تناول فرمائیے۔ میں نے مجبوری کے عالم میں آپ کی امانت میں خیانت کر دی ہے، آپ مجھے معاف فرما دیجیے۔"

آپ نے خدا کا شکر ادا کیا، نہایت خندہ پیشانی سے اسے معاف فرما دیا اور اس کے پاس سے باقی درہم وصول فرما کر اس کی دل جوئی کے لیے کچھ درہم اسے عطا کر کے رخصت کر دیا۔ (قلائد الجواہر مترجم، صفحہ: 42)

یقیناً یہ آپ کے صبر و استقلال ہی کا نتیجہ تھا کہ ظاہری مصائب و مشکلات کو صبر و رضا کے ساتھ قبول کرنے کے بعد آپ اس مقام پر فائز ہوئے جہاں کبار اولیاء و مشائخ نے آپ کے قدموں کے احترام میں گردنیں خم کر دیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے