امام بیہقی صاحب سنن کبریٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

امام بیہقی صاحب سنن کبریٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:* امام ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن عبداللہ بن موسیٰ نیشاپوری، خسروجردی، بیہقی۔ رحمۃ اللہ علیہ

*تاریخِ ولادت:* آپ رحمۃ اللہ علیہ شعبان 384 ھ میں بیہق کے علاقہ "خسرو جرد" جو نیشاپور کا نواحی علاقہ ہے، میں پیدا ہوئے ۔

*تحصیلِ علم:* امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے کثیر اساتذہ کے سامنے زانؤے تلمذ طے کر کے مختلف علوم و فنون پر عبور حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ کرام میں انتہائی شہرت کے حامل یہ حضرات ہیں: 
ابو الحسن محمد بن حسین العلوی، امام ابو عبداللہ الحاکم، ابو اسحاق، اسفرائینی، عبداللہ بن یوسف اصبھانی، ابو علی الروزباری، امام بزاز، ابو بکر ابن فورک وغیرہ۔
آپ کے اساتذہ کی تعداد ایک سو سے زائد ہے۔

*سیرت و خصائص:* امام ابوبکر احمد بن الحسین بیہقی تمام اصنافِ علم کے امام، حدیث کے حافظ، بہت بڑے فقیہ اور اُصولی تھے۔ پھر متدین اور خدا سے ڈرنے والے بھی تھے۔ اپنے زمانے کے سب سے بڑے حافظِ حدیث، اور معاصرین میں ضبط و اتقان میں انفرادیت کے حامل تھے۔ 
امام ابو عبداللہ الحاکم رحمۃ اللہ علیہ سے کثرت سے روایت کرنے والے کبار اصحاب میں آپ کا شمار ہوتا تھا اور پھر اس پر اُنھوں نے اپنی محنت و کاوش سے دیگر علوم میں بھی مہارت پیدا کی۔ کتابت اور حفظِ حدیث بچپن سے شروع کیا اور اسی میں ہی پلے بڑھے اور تفقہ فی الدین کی منازل طے کرتے ہوئے ان میں نکھار پیدا کیا اور اُصولِ دین میں مہارت حاصل کی۔سلف و صالحین کا خصوصی امتیاز یہ تھا کہ جس قدر ان کے پاس دولت علم ہوتی تھی اسی قدر ان کی زندگی عمل صالح سے بھی معمور ہوتی تھی اور عالم باعمل کی حقیقی تصویر ہوا کرتے تھے، بالکل ایسا ہی کچھ جناب امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا طرزِ زندگی تھا کہ آپ بڑے زاہد عن الدنیا، انتہائی قانع، بہت بڑے متقی اور پارسا شخص تھے۔ آپ کے ان اوصاف کی گواہی اہل تاریخ نے دی ہے۔ 
امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ رقم فرماتے ہیں:
"مجھے شیخ ابو الحسن الفارسی نے جنابِ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی بابت لکھا کہ آپ سیرتِ علماء کا عملی نمونہ تھے، انتہائی تھوڑے پر قناعت فرمانے والے اور زہد و ورع کے اعلیٰ اوصاف سے مزین تھے اور حدیہ ہے کہ تادمِ زیست اسی طرزِ حیات پر کاربند رہے"۔
آپ زاہد عن الدنیا، بہت تھوڑے پر راضی ہونے والے اور عبادت و ورع میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے۔آپ حفظ و اتقان میں اپنے زمانہ کے نادرہ روز گار تھے۔ ثقہ اور بااعتماد امام تھے اور پورے خراسان کے بالاتفاق شیخ تھے۔

*تاریخِ وصال:* امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے سلسلے میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ آخر عمر میں وہ نیشاپور اُٹھ گئے تھے اور وہاں اپنی کتب کے درس میں مشغول ہو گئے، لیکن جلد ہی وقتِ رحلت آن پہنچا اور 10 جمادی الاولیٰ 458ھ/بمطابق اپریل 1066 میں نیشاپور میں ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ 
اور بیہقی میں لاکر آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ رحمہ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ۔

*ماخذ و مراجع:* تذکرۃ الحفاظ۔ طبقات الحفاظ

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب📝 شمـــس تبـــریز نـــوری امجـــدی 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے