عورت اور تعلیم

عــورت اور تعلیــم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖ 

 موجودہ دور میں تعلیم نسواں کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کیوں کہ خواتین معاشرے کا نصف حصہ ہیں لھٰذا انکی تعلیم و تربیت قوم اور معاشرے دونوں کی ترقی اور بھلاٸ کیلیے ضروری ہے۔
لفظ تعلیم وتربیت دواجزا کا مرکب ہے ١/ تعلیم یعنی سکھنا سکھانااور پڑھنااور پڑھانا معلومات اور پہچاننا اور ٢ /تربیت یعنی اچھی پرورش کرنا ,اچھے اخلاق وعادات کا خوگر بنانا اس لیے تعلیم اور تربیت دونوں اسلام میں بنیادی اہمیت کا حامل ہیں۔

اسلام کا نظریہ تعلیم و تربیت:
اسلام کی نظر میں تعلیم کا مقصد خالص رضاۓ الہی کا حصول ہے جسکےلیے تعلیم وتربیت دوسرے نظام تعلیم سے منفرد ہے کیوں کہ اسمیں تربیت کا تصور بھی پایاجاتاہے یہ طلبہ و طالبات کو صرف معلومات ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ نفس کی تربیت کا بھی اہتمام کرتا ہے اور ساتھ ہی زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے دیگر نظام تعلیم صرف ایک شہری بنانا چاہتے ہیں جبکہ اسلامی نظام تعلیم ایک اچھا انسان بناتا ہے 
یہی وجہ ھیکہ اسلام نے تعلیم وتربیت کو ابتدا ہی سے بنیادی اہمیت دی ہے اور حصول علم کو مرد اور عورت دونوں کیلیے یکساں ولازمی قرار دیا قرأن و حدیث میں علم کی بہت فضیلت بیان کی گٸ ہے بلکہ معلوم ہے کہ اسلام میں حصول علم سے بڑھکر کوٸ چیز نہیں ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوٸ اسکا أغاز بھی لفظ{ اقرأ } سے ہوا ایک اور جگہ اللّہ تعالی نے ارشاد فرمایا[ قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون ] »ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں۔  
احادیث مبارکہ میں بھی علم کی فضیلت کثرت سے بیان کی گٸ ہے أپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
( طلب العلم فریضة علی کل مسلم ومسلمة )
»ہر مسلمان مردو عورت پر علم دین حصل کرنا فرض ہے۔

اسلام میں تعلیم نسواں کا مقصد ایسی تعلیم ہے جو نسوانی زندگی اور نسوانی مقاصد حیات سے ہم أہنگ ہو اور جو عورت کو ایک باکردار وہمدرد ماں صالح و نیک بیٹی وفا شعار بہن اور فرمانبردار بیوی بناۓ قرأن کریم نے اسکو کچھ اسطرح بیان کیا ہے {فالصّٰلحٰت قٰنتٰت حٰفظٰت لّلغیب بماحفظ اللہ }
»جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں مردوں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں انکے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔

ایک حدیث میں حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ: 
سنو تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے (قیامت کے دن) اپنی اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیاجاۓ گا ایک مرد اپنے گھر والوں کا نگراں ہے اس سے اسکی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اسکی اولاد کی نگراں ہے اس سے انکے بارے میں کیا جاۓ گا سنو تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے اسکی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جاۓ گا۔
اسی مقصد کی بنا پر اسلام نے عورتوں کی تعلیم و تربیت میں مردوں کے برابر قرار دیا اور انکے لیے تعلیم لازم قرار دیا کہ وہ بھی شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں البتہ پردہ اور مردوزن کے اختلاط کے قوانین بھی انکو بتا دیے کہ معاشرے میں بگاڑ اور بے راہ روی پیدا نہ ہو اسی وجہ سے أپنے خواتین کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرمائی اور سورة البقرة کی أیات کے متعلق فرمایا کہ تم خود بھی انکو سیکھو اور اپنی خواتین کو بھی سکھاٶ۔

خود آپ نے ہفتہ میں ایکدن صرف خواتین کی تعلیم وتربیت کیلیے مخصوص کیا تھا اس دن خواتین آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور آپپ سے مختلف قسم کے سوالات اور روز مرہ مسائل کا حل پوچھتیں اسکے علاوہ آپنے امہات المٶمنین کو بھی حکم دے رکھا تھا کہ وہ خواتین کو دینی مساٸل سے أگاہ کیا کریں 
ابتدائی دور اسلام میں پانچ خواتین لکھنا پڑھنا جانتی تھیں ام کلثوم ,عاٸشہ بنت سعد , مریم بنت مقدار اور ام المٶمنین حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو کتابت سکھاتی تھیں تو أپنے فرمایا کہ انہیں خوش خطی بھی سکھاٶ حضور علیہ السلام کی اس توجہات کا نتیجہ تھا کہ تمام اسلامی علوم و فنون مثلاً تفسیر ,حدیث ,فقہ ، فتاوی ،خطابت ، شاعری اور طب وجراحت میں بے شمار صحابیات نے کمال حاصل کیا عہد نبوی کے بعد خلفاۓ راشدین کے دور میں بھی خواتین کی تعلیم وتربیت کی طرف بھر پور توجہ دی گٸ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کیا کہ (علّموا انسإٶکم )سورة النور پ ١٨ اپنی خواتین کو سورة النور ضرور سکھاٶ کہ اسمیں خانگی و معاشرتی زندگی کے متعلق بے شمار مساٸل اور احکام موجود ہیں۔

افسوس کہ قرأن و سنت کی اتنی تاکید کے باوجود بھی آج ہم لوگ لڑکیوں کی تعلیم کی طرف سے غافل ہیں بعض لوگ کہتے ہیں ہمیں اپنی بچیوں سے نوکری نہیں کرانی ہے یا اپنی بیویوں کی کمائی نہیں کھانی ہے لہذا انکو تھوڑی بہت تعلیم دلانا کافی ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک عورت کو تعلیم دلانا پورے خاندان کو تعلیم دلانا ہے کیوں کہ ماں کی گود ہی بچے کی اولین درسگاہ ہوتی ہے اگر وہ تعلیم یافتہ ہوگی تبھی اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرسکے گی
بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اس سے لڑکیاں بگڑ جاتی ہیں لیکن اسکا حل یہ نہیں کہ سرے سے تعلیم ہی نہ دلاٸ جاۓ بلکہ انکی ایسی تربیت کی جاۓ کہ وہ کہیں بھی جاٸیں لیکن وہ تبدیل نہ ہوں اور پھر یہ بھی کہ تعلیم کے بعض شعبوں میں مسلم خواتین کو لامحالہ مرد ڈاکٹروں سے علاج کرانا ہوگا اور نہ چاہتے ہوۓ بھی انکے سامنے قابل ستر اعضا کھولنے پڑیں گے یہ تو صرف دنیاوی محاذ ہے اگر کسی کو مسائل یعنی حیض و نفاس واستحاضہ تمام طرح کے مساٸل جو عورتوں کیلیے بالخصوص ہو یہ ایسے مساٸل ہیں جس سے ایک عورت اپنے شوہر دیگر حضرات سے پوچھنے میں جھجھک محسوس کرتی ہے اور اپنے معاشرے میں بڑھتی خرابیاں کو روکنے کے بجاۓ اور اسمیں غرق ہوتی چلی جاتی ہیں اور شرمندگی کرتے ہوۓ اپنے اندر مزید خرابی اور گناہوں میں مبتلا ہوجاتیں ہیں اسی طرح پر عاٸلی چیزوں میں عمل پیرا نہ ہونے کی صورت میں وہ گناہگار ہوجاتیں ہیں اگر کسی کا شوہر انتقال ہوجاۓ تو اب ایک غلاموں کی طرح زندگی گزارتی پھرتی ہے لیکن اگر أپ تعلیم یافتہ ہوں گے تو پہلی بات کے أپ کے اندر جوبھی شرمندگی ہوگی أپ اس سے ہم کنار ہوکر اپنی زندگی کی گاڑی بڑھا سکتی ہو ایک تعلیم یافتہ عورت شوہر کے انتقال کے بعد نوکری کے اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کی گاڑی أسانی سے کھینچ سکتی ہے۔ 

خواتین کا اسلامی تعلیمات سے غفلت کا نتیجہ ہے کہ وہ اللہ اور اسکے رسول کی شان میں گستاخی ,مختلف شرک و بدعات ,والدین اور دوسرے لوگوں کے حقوق سے ناواقفیت شوہر کی عدم اطاعت ٗ اس سے غیر ضروری مطالبات کرکے ناک میں دم کرنا اولاد کیلیے جادو ٹونا ایک دوسرے پر لعن طعن غیبت , فیشن وعریانیت بےحجابی اور فضول رسم و رواج کی مرتب ہوتی ہیں اسکے برعکس ایک تعلیم یافتہ عورت صحیح غلط ,حق و ناحق اور جاٸز و ناجاٸز کی نہ صرف تمیز کرتی ہے بلکہ اپنی زندگی میں آنے والے تمام مساٸل کو خوش اسلوبی سے حل کرتی ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ باشعور اور دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ مند خواتین گھر ٗ خاندان اور معاشرہ میں بہت عمدگی سے اپنا کردار اداکرسکتی ہیں شوہروں کیلیے جسمانی و روحانی سکون وتسکین اپنے قول و عمل سے اولاد کو دین داری کا درس اولین گھروں میں توکل قناعت اور سکون و آرام کی فضا کی فراہمی اور دیگر فراٸض سے وہ کماحقہ نمٹ سکتی ہیں۔
اپنے تعاون ,رفافقت اور ہمت افزائی سے مردوں کو دینی و دنیاوی ترقی کے دروازے تک پہونچاسکتی ہے ہمسایوں ودیگر عزیز واقارب کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوۓ اپنے نیک سلوک سے آس پاس ایک ہمدرد مہذب دیندار اور معاون ماحول پیداکرسکتی ہیں اسطرح عورت کے گوناگوں اور صاف و کردار سے جب مرد کو ایک پرسکون گھر اور مخاف حالات کی تپتی دھوپ میں عورت کے ذریعہ ٹھنڈی چھاٶں ملے گی تو اسکی راہیں خود بخود سازگار ہوتی چلی جاٸیں گی بصورت دیگر ایسا شخص جسکے گھر میں الجھن مساٸل بے چینی بے دینی ہوتو نہ تو وہ معاشرے میں امن قاٸم کرسکتا ہے اور نہ عالمی سطح پر امن کا علمبردار بن سکتا ہے۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
از قلم⁦✍️⁩ محمد عبید رضا علیمی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے