قاضی ثناء اللّٰه پانی پتی رحمۃ اللّٰه علیہ

قاضی ثناء اللّٰه پانی پتی رحمۃ اللّٰه علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسم گرامی: قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ۔
لقب: قاضی الاسلام۔ بیہقی وقت، علم الہدیٰ، مفسر قرآن، فقیہ اعظم۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے: قاضی محمدثناء اللہ پانی پتی بن مولانا محمدحبیب اللہ بن مولانا ہدایت اللہ بن مولانا عبدالہادی،بن سعیدالدین بن شیخ عبدالقدوس بن شیخ خلیل اللہ بن مفتی عبدالسمیع بن شیخ حسین بن خواجہ محفوظ بن خواجہ احمد بن خواجہ ابراہیم بن مخدوم خواجہ شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتی۔علیہم الرحمہ۔
آپ کا سلسلہ نسب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک منتہی ہوتا ہے۔ 
حضرت قاضی صاحب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: حضرت کبیر الاولیاء پانی پتی نے اپنے صاحبزادے شیخ ابراہیم کو بشارت دی تھی کہ تمھاری نسل میں ہمیشہ علماء پیدا ہوتے رہیں گے۔ 
قاضی صاحب فرماتے ہیں: حضرت کی بشارت کے عین مطابق اب تک یہ سلسلہ اس خاندان میں قائم ہے۔ حضرت قاضی صاحب کا ننھیال پانی پت کا انصار خاندان ہے۔ جن کا سلسلہ نسب حضرت میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تک منتہی ہوتا ہے۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت کی تاریخ خاموش ہے، البتہ قیاس وغیرہ سے 1144ھ،تا 1140ھ کے مابین متعین ہوتا ہے۔ پانی پت آپ کی جائے پیدائش ہے۔
(تذکرہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی:63)

تحصیلِ علم: آپ کا خاندان علم و فضل میں مشہور تھا۔ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہوئی۔آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن مجید مکمل فرما لیا۔ اس کے بعد آپ نے قرآتِ عشرہ کی تحصیل و تکمیل فرمائی اس فن میں کمال و مہارت کا اندازہ تفسیر مظہری کے مطالعے سے کیا جا سکتا ہے۔ شاید اس فن میں کوئی تفسیر "تفسیر مظہری" کا مقابلہ کر سکے۔ قرأتِ عشرہ کی تکمیل و تحصیل دیگر اساتذہ کے علاوہ شیخ قاری صالح المصری علیہ الرحمہ سے فرمائی۔ تکمیل قرآن کے بعد قاضی صاحب نے ابتدائی کتب اپنے والدِ گرامی مولانا قاضی محمد حبیب اللہ اور برادر اکبر قاضی محمد فضل اللہ سے پڑھیں۔ ان کے علاوہ دیگر پانی کے دیگر اساتذہ سے علمی استفادہ کیا۔ پانی پت کے مدارس میں تکمیل کرنے کے بعد مزید حصولِ علم کےلئے حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں علیہ الرحمہ اور شیخ المحدثین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان دونوں نابغۂ روزگار شخصیات سے تمام علوم اور بالخصوص فن حدیث و تفسیر اور تصوف میں کمال حاصل کیا۔

*بیعت و خلافت:* ابتداً شیخ محمد عابد سنامی علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے، پھر ان کے وصال کے بعد شیخ مرزا مظہر جان جاناں علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہ کر فیض حاصل کیا۔ انہوں نے آپ کو تمام اسانید و سلاسل کی اجازت عطاء فرمائی۔

*سیرت و خصائص:* قاضی الاسلام، مفسر قرآن، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ، جامع شریعت و طریقت، فقیہ الاعظم، بیہقیِ عصر، صاحبِ علم الہدیٰ، امام العلماء، شیخ الاتقیاء، صاحبِ معارف اسرار ربانی حضرت قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے ایک عظیم مفسر و محدث اور فقیہ ِ کامل تھے۔ تمام علوم و فنون میں کمال مہارت حاصل تھی۔ پانی پت میں قاضی اسلام کے منصب پر فائز تھے۔ خاتم المحدثین شیخ المحققین حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ آپ کے تبحر علمی ،اور فنِ حدیث میں مہارت کے پیشِ نظر آپ کو "بیہقیِ وقت" اور امام الاولیاء رئیس الاتقیاء حضرت مرزاجانِ جاناں علیہ الرحمہ نے آپ کو "علم الہدیٰ" کا خطاب عطاء فرمایا۔آپ کی تربیت میں سب سے زیادہ حصہ حضرت مرزاجانِ جاناں علیہ الرحمہ کا ہے۔ ان کی تربیت نے آپ کو "مجمع البحرین" بنا دیا۔

جب حضرت نے آپ کو سلوک کی تمام منازل طے کرادیں تو فرمایا تم شیخ محمد اعظم بچھراؤنی خلیفہ اعظم شیخ محمد افضل سیالکوٹی کی خدمت میں جاؤ، جو کمالات مجھ سے حاصل کیے ہیں ان کے آئینہ باطن پر پیش کرو، کیونکہ وہ انتہائی متقی اور صاحبِ کشف بزرگ تھے۔ جب ان کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نے فرمایا:
"اس شخص کی شان بہت عظیم ہے، اور اس پر کسی اور کو قیاس نہیں کیا جا سکتا"۔(ایضاً)۔
اس عبارت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ حضرت قاضی صاحب علیہ الرحمہ کس قدر روحانی مراتب کے حامل تھے۔یہی وجہ ہے حضرت مرزاجان جاناں علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے: 
"قیامت کےدن بارگاہِ خداوندی میں اپنے نامۂ اعمال میں حضرت قاضی صاحب کو پیش کردونگا"۔
حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ ایک ثقہ اور متدین عالمِ دین تھے۔ آپ اقلیمِ علم کے تاجدار تھے۔ آپ کی ساری زندگی دینِ اسلام کی خدمت، درس و تدریس و عظ و نصیحت میں گزاری ۔

مولانا فقیر محمد جہلمی فرماتے ہیں: حضرت قاضی ثناءاللہ صاحب شیخ جلا ل الدین کبیر الاولیاء چشتی کی اولاد میں سے تھے جن کا نسب حضرت عثمان غنی کی طرف منتہیٰ ہوتا ہے۔
فقیہ، محدث، محقق، مدقق، منصف مزاج، جامع علوم عقلیہ و نقلیہ اور فقہ واصول میں مرتبۂ اجتہاد پر پہنچے ہوئے تھے۔ علم تفسیر و کلام اور تصوف میں ید طولیٰ حاصل تھا، صفائی ذہن وجودت طبع وقوت فکر اور سلامتی عقل زائد الوصف حاصل تھی،اکثر خواب میں شیخ جلال اپنے جد امجد اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہ سے تربیت اور بشارات حاصل کیں۔ مرزا صاحب (مظہرجانِ جاناں) آپ کے حق میں فرماتے تھے کہ میرے دل میں آپ کی بہت ہیبت ہے اور بسبب صلاح اور تقویٰ و دیانت کے آپ مروج شریعت اور منور طریقت اور ملکی صفات ہیں فرشتے آپ کی تعظیم بجا لاتے ہیں، اگرخدا نے مجھ سے قیامت کو پوچھا کہ ہماری درگاہ میں کیا تحفہ لایا ہے تو میں ثناء اللہ کو پیش کرونگا۔ آپ اکثر اوقات طاعت و عبادت میں مشغول رہتے تھے،ہر روز سو رکعت نماز اور ایک منزل قرآن شریف تہجد میں وظیفہ کیا ہوا تھا۔قضاء کا منصب بھی اختیار کیا تھا اور جیسا کہ چاہئے اس کا حق ادا کیا۔ 
*(حدائق الحنفیہ:484)*

آپ نے بہترین عقائد و اعمال پر بہترین کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ تمام کتب میں جو مقام "تفسیر مظہری" کو ملاوہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس تفسیر کو عرب و عجم میں اور تمام مکاتب فکر میں مقبولیتِ عامہ حاصل ہوئی۔آپ نے اس میں شریعت و طریقت دونوں کو جمع کر دیا ہے۔ دوسرے مکتبۂ فکر کے مدارس بورڈ کے اندر ان کی فقہی مسائل پر مشتمل کتاب "مالابدمنہ"شامل نصاب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ آپ کی شخصیت کے معترف ہیں۔
کاش! اگر وہ تفسیر مظہری کے اندر جو تعلیمات بیان کی گئیں ہیں، ان کو تسلیم کر لیتے تو آج امت میں اختلاف ختم ہوجاتے۔صرف تفسیرِ مظہری سے ایک اقتباس نقل کرتا ہوں۔
قارئینِ کرام،حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ کے نظریات و تعلیمات سے خود اندازہ لگالیں گے کہ ہمارے اکابرین کے نظریات و عقائد کیا تھے۔

سورت البقرہ آیت نمبر 151 میں "یُعلِمُّ" فعل ک اتکرار کیوں آیا ہے؟ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
"تکرار الفعل یدل علی ان ھذا التعلیم من جنس آخرولعل المرادبہ العلم اللدنی الماخوذمن بطون القرآن ومن مشکاۃ صدرالنبیﷺ الذی لاسبیل الی درکہ الا الاِنعکاس۔الٰی آخرہ۔
*ترجمہ:* یعلم فعل کا تکرار اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ تعلیم پہلی تعلیم کتاب و حکمت سے الگ نوعیت کی ہے۔ اور شاید اس سے مراد علم لدُنّی ہے جو قرآن کے باطن اور نبی مکرم ﷺکے منور و روشن سینہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اور اس کے حصول کا ذریعہ یہ مروجہ تعلیم و تعلّم نہیں (یعنی یہ تعلیم کسی ادارے میں نہیں پڑھائی جاتی،اور نہ ہی اس کی کوئی کتب و نصاب ہیں) بلکہ انعکاس ہے یعنی آفتاب قرآن کی کِرنیں اور ماہتابِ نبوت کی شعاعیں دل کے آئینہ پر منعکس ہوتی ہیں۔ اولیائے کاملین جو انوار نبوت کے صحیح وارث ہوتے ہیں وہ بھی اپنے مریدیان باصفا پر اسی قسم کے علوم و معارف کا القاء اور فیضان فرماتے ہیں۔

فاذکرونی اذکرکم۔سورۃ البقرہ ،152،کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
*ترجمہ:* جب ان معارف کے حاصل ہونے کا طریقہ صرف القاء اور انعکاس ہے، اور ذکر الٰہی اور مراقبہ سے ہی دل میں یہ استعداد پیدا ہوتی ہے کہ وہ حضور ﷺکے پُر نور سینہ سے بلا واسطہ یا بالواسطہ فیضان و القاء قبول کرسکے اس لیے حکم دیا کہ میرا ذکر کیا کرو۔ کثرت ذکر سے ہی تم اس مقام فائز کیےجاؤ گے (یعنی سینۂ مصطفیٰﷺ بلاواسطہ فیض حاصل کر سکوگے) جہاں انوار و تجلیات کی بے محابا بارش ہوتی ہے اور دوری کے حجاب یکسر اُلٹ دیئےجاتے ہیں۔
*(تفسیرِ مظہری ج،1،تحت الآیۃ)*

*تاریخِ وصال:* آپ کا وصال یکم رجب المرجب 1225ھ، مطابق 2/ اگست 1800ءکو ہوا۔آپ کا مزار پر انوار پانی پت انڈیا میں مرجعِ خلائق ہے۔

*ماخذ و مراجع:* حدائق الحنفیہ۔ تذکرہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی۔ تفسیرِ مظہری۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے