حضرت مولانا مفتی عبدالجلیل رضوی بہاری رحمۃ اللہ علیہ

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
-----------------------------------------------------------
🕯حضرت مولانا مفتی عبدالجلیل رضوی بہاری رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:* 
*اسمِ گرامی:* مفتی عبدالجلیل۔
*لقب:* فقیہ العصر، رضوی، بہاری۔
*والد کا اسم گرامی:* مولانا سخاوت علی۔
آپ کے والد ماجد مولانا سخاوت علی علیہ الرحمہ بہترین فارسی داں اور اپنے زمانے کے مشہور میلاد خواں تھے۔

*تاریخ ِولادت:* حضرت مولانا عبدالجلیل رضوی 15/شوال المکرم 1352ھ، مطابق/ یکم فروری 1934ء کو ایک اعلیٰ گھرانے میں پیدا ہوئے۔

*تحصیل علم:* مولانا مفتی عبدالجلیل جب سخن آموزی کی منزل عبور کر چکے تو اپنے والد گرامی سے بسم اللہ خوانی کی رسم ادا کر کے ابتدائی تعلیم تا قرآن شریف کی تعلیم مکمل کر کے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے متعدد مدارس اسلامیہ کا سفر کیا۔ پھر جامعہ نعیمیہ مراد آباد تشریف لے گئے، خصوصیت کے ساتھ مولانا الحاج محمد یونس اشرفی مفتی حبیب اللہ نعیمی بہاری اور مولانا طریق اللہ قادری کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر کے فراغت حاصل کی۔مفتی حبیب اللہ نعیمی بہاری کی دور بین نگاہوں نے مولانا عبدالجلیل کی ذہانت و فطانت کا جائزہ لیا اور دور طالب علمی میں دارالافتاء کی ذمہ داری آپ کے دوش ناتواں پر ڈال دی جسے مولانا عبدالجلیل بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ اور زمانۂ طالب علمی کی تربیت آپ کی پوری زندگی پر اثر انداز اور پوری زندگی مسائل کی جانکاری کے لیے مرجع خلائق بنے رہے۔

*بیعت و خلافت:* حضور مفتیِ اعظم ہند شاہ مصطفیٰ رضا خان نوری علیہ الرحمہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اور 15/ربیع الاول 1392ھ میں تمام سلاسل کی خلافت اور عملیات کی اجازت سے نوازا۔ آپ کا حلقہ ارادت بہت وسیع ہے۔

*سیرت و خصائص:* عالمِ جلیل، فاضل ِنبیل، فقیہ العصر، خلیفۂ مفتی اعظم ہند، جامع شریعت و طریقت حضرت علامہ مولانا مفتی عبدالجلیل رضوی بہاری رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک متحرک شخصیت کے مالک تھے، ہر وقت دین کی اشاعت میں کوشاں نظر آتے۔ آپ نے دینی مدارس کے ذریعے اہل سنت و جماعت کے فروغ میں بڑا کردار ادا کیا۔ آپ نے 1956ء میں "جامعہ اسلامیہ نوریہ" کی بنیاد رکھی تھی، آج الحمدللہ ایک تناور درخت کی شکل میں موجود ہے، اور آپ کا علمی و رحانی فیضان تقسیم ہو رہا ہے۔

مولانا عبدالجلیل علیہ الرحمہ میانہ قد، انتہائی حسین تھے اور چہرۂ بارعب کہ بڑے سے بڑے لوگوں پر ان کا ایک دبدبہ طاری رہتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود چہرے پر ایک مسکراہٹ قائم رہتی، اور اتنی سنجیدگی طاری رہتی کہ لوگ ادب کے دائرے سے باہر جانے کی جرأت نہیں کرتے۔آپ کا اخلاق بڑا وسیع تھا جو بھی ان سے ملاقات کےلیے آیا متاثر ہوئے بغیر نہیں گیا اور ہر کوئی یہی کہتا خواہ بڑا ہو یا چھوٹا اپنا ہو یا پرایا۔ فقیہ العصر مفتی عبدلجلیل علیہ الرحمہ ہم سے زیادہ محبت کرتے تھے اور ہم سے زیادہ کسی دوسرے سے اتنی محبت نہیں کرتے۔
اس قدر ہر ایک کے دلوں میں ان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور خیالات اتنے بلند کہ مولانا عبدالجلیل جو فرماتے سننے والے یہ سمجھتے کہ گویا یہ میرے دل کی بات ہے۔

مولانا مفتی عبدالجلیل علیہ الرحمہ کو کتابوں کے مطالعہ کا بے حد شوق تھا اور نظر بڑی محققانہ تھی کتابوں کی کثیر تعداد ان کی ذاتی ملکیت میں تھی۔ مطالعہ کتب کا حال ایسا کہ کوئی مسئلہ در پیش ہوا ، تو تحقیق کا دروازہ کھلا ہوتا کتابوں کا انبار سامنے ہوتا اور مسائل حل ہوتے ہر مسئلہ پر باریک نظر تھی۔ دلائل سامنے لاتے اور تشنگان علم و فن کی خوب خوب سیر یابی ہوتی، عربی و فارسی کی بہترین صلاحیت تھی۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ریاضی میں کافی ادراک عطا فرمایا تھا۔ ریاضی کا وہ مسئلہ جس کا حل ہونا ہر ایک سے مشکل ہوتا آپ اسے منٹوں میں حل کر دیتےتھے۔

ہر جگہ شریعت مطہرہ کا خیال مقدم ہوتا، اور کوئی بات جو شریعت کے خلاف ہو برداشت نہیں کرتے تھے اور ہم عصر علماء میں اپنے زہد و تقویٰ کے لحاظ سے ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اپنے پرائے آپ کے زہد و تقویٰ سے متأثر تھے۔ آپ جہاں بھی تشریف لے جاتے نماز کی امامت آپ کرتے تھے۔ آپ کی موجودگی میں کوئی بھی آگے نہیں بڑھتا تھا۔ حضور مفتی اعظم ہند شہزادہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ آپ کی دینی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ تقریباً آپ چوبیس دینی مدارس کی سرپرستی فرماتے تھے۔ اسی طرح اہل سنت کی کئی تنظیموں کی سرپرستی، و معاونت ،درس و تدریس، افتاء ،وعظ و نصیحت، مریدین کا تزکیہ وغیرہ آپ کے اہم مشاغل تھے۔ الغرض آپ نے ایک عملی زندگی گزاری، اپنے وقت کو صحیح مصرف میں لاکر اللہ جل شانہ اور اس کےحبیبﷺ کی بارگا میں سرخرو ہوئے۔ آپ کی زندگی آج کے نوجوان علماء کےلئے مشعل ِراہ ہے۔

*تاریخِ وصال:* اس تاریخ ساز شخصیت کا وصال 2 /جمادی الثانی 1409ھ، مطابق 11/جنوری 1989ء بروز جمعرات شب 9 بج کر 40 منٹ پر ہوا۔

*ماخذ و مراجع:* مفتیِ اعظم ہند اور ان کےخلفاء۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب📝 شمـــس تبـــریز نـــوری امجـــدی 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے