قطب العالم حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب: شیخ عبدالقدوس بن شیخ اسماعیل بن شیخ صفی الدین۔
آپ کے دادا شیخ صفی الدین حضرت میر سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔
آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ پر منتہی ہوتا ہے۔
*تاریخِ ولادت:* آپ ۸۶۱ھ مطابق ۱۴۵۶ء رودلی میں پیدا ہوئے۔ آپکی ولادت کی بشارت شیخ عبدالحق رودلوی نے آپکے والدِ گرامی کو بایں الفاظ ارشاد فرمائی تھی:
"تمہاری پشت سے ایک ایسا فرزند پیدا ہوگا جو نور ہی نور ہوگا اور ہماری نعمت اسکو ملے گی۔"
*تحصیلِ علم:* آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ،اسی طرح خوشنویسی کی تربیت بھی والدِ گرامی سے ہی حاصل ہوئی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ آپکے مکاتیب و مخطوطات اپنی خوشنویسی کیوجہ سے بہت دل آویز ہیں۔ آپکے فرزند ارجمند شیخ رکن الدین فرماتے ہیں :
"چوں حضرت شیخ بہ تعلیم ِکتا بَہا مشغول شدند در تمام روزمی خواند و تمام شب بشغل ذکرو عبادت حق مشغول بودند۔
"یعنی حضرت شیخ سارا دن کتب کے مطالعہ اور تعلیم میں مشغول رہتے ،اور ساری رات اللہ تعالیٰ کی عبادت و ذکر میں مشغول رہتے تھے۔ (لطائفِ قدوسیہ)
آپکی علم کی دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے کئی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔
*بیعت و خلافت:* آپ حضرت شیخ محمد بن حضرت شیخ عارف کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور ان سے خرقہ خلافت بھی پایا۔ آپ کو سلاسلِ اربعہ میں خلافت حاصل ہے ۔لیکن اصل میں آپ حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی کی روحانیت سے مستفید و مستفیض تھے۔
*سیرت و خصائص:* آپ مادر زاد ولی تھے۔ بچپن میں ہی جو بات زبان سے نکل جاتی وہ پوری ہوکے رہتی۔ ریاضات و مجاہدات میں آپ بایزید دہر اور فرید عصر تھے۔ سرورِ عالم ﷺ کی سیرتِ طیبہ پر سختی سے عمل پیرا تھے۔ ہر وقت مخلوقِ خدا کی تعلیم و تربیت میں مشغول میں رہتے، اور آپکی تربیت و صحبت میں ایسا اثر تھا کہ تھوڑی سی توجہ سے اسکے باطن کو صاف کرکے واصل باللہ کر دیتے تھے۔
آپ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن شیخ عبدالحق رودلوی علیہ الرحمہ کے مزار پر حاضر ہوا ،اور میرے ہاتھ میں علم النحو کی مشہور کتاب "کافیہ" تھی۔ میں مزار شریف کی صفائی کر رہا تھا کہ اچانک مزار سے "حق حق" کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ اس سے میں بیخود ہوکر گر پڑا، اور اس بیخودی کی حالت میں نعمت ازلی و ابدی نصیب ہوئی۔پھر فرماتے ہیں کہ میں جب کسی دنیاوی کام میں مشغول ہونا چاہتا تھا تو وہی "حق حق " کی صدا کانوں میں آتی تھی تو میں دنیاوی مشاغل ترک کرکے حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا تھا ۔
حضرت شیخ احمد عبدالحق کی روحانیت میری طرف اس حد تک متوجہ تھی کہ ہمیشہ آخر شب مجھے بیدار کر کے نماز تہجد کا حکم دیا جاتا تھا۔ آپ میں عاجزی و انکساری اس حد تک تھی کہ نماز ادا کرنیکے بعد نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کرکے رکھتے تھے۔
(یہ تھے قطب العالم)
*وصال:* آپکا وصال ۲۳/جمادی الثانی،۹۴۴ھ مطابق۱۵۳۷ء کو ہوا۔ مزار شریف گنگوہ ضلع انبالہ (انڈیا) میں مرجع خاص و عام ہے۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں