حضرت عبداللہ بن حُذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اسلام پر اِستقامت
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
حضر ت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت کرتے ہیں کہ: ’’روم کی جنگ میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ صحابی ٔرسول حضرت عبداللہ بنحُذَافَہ سَہْمِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو بھی قید کر لیا گیا۔ رومی سردار نے تمام مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلایا اور حضرت عبداللہ بنحُذَافَہ سَہْمِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا:
نصرانی ہوجاؤ، ورنہ میں تمہیں تانبے کی دیگ میں ڈال کر جلادوں گا۔
یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا:
’’ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا، میں کبھی بھی نصرانی نہیں بنوں گا۔ ظالم سردار نے جب یہ سنا تو تانبے کی دیگ منگوا کر اس میں تیل ڈلوایا، پھر اس کے نیچے آگ جلانے کا حکم دیا۔ جب تیل خوب گرم ہوکر ابلنے لگا تو ایک مسلمان قیدی کو بلاکر کہا: نصرانی ہوجاؤ، اس مردِ مجاہد نے انکار کیا تو اسے ابلتے ہوئے تیل میں ڈلوا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا سارا گوشت جل گیا اور ہڈیاں اوپر تیرنے لگیں۔ پھر حضر ت عبداللہ بن حُذَافَہ سَہْمِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا گیا: عیسائی ہوجاؤ، ورنہ اس شخص کی طرح تمہیں بھی اس ابلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا جائے گا۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے صاف انکار کردیا۔
ظالم سردار نے حکم دیا کہ اسے بھی تیل کی دیگ میں ڈال دو۔ حکم پاتے ہی جلادوں نے آپ کو پکڑا اور ابلتے ہوئے تیل میں ڈالنے کے لئے لے چلے ۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اچانک رونا شروع کر دیا۔ جلاد ،ظالم سردار کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ قیدی رو رہا ہے ۔سردار بہت خوش ہوا اور حکم دیا کہ اسے ہمارے پاس لے آؤ۔ وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ شاید آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ موت کے ڈر سے اس کی بات ماننے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔
جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس کے سامنے آئے تو فرمایا: ’’کیا تم لوگ یہ سمجھ رہے ہوکہ میں موت کے خوف سے رو رہا ہوں۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! میں موت کے خوف سے نہیں بلکہ میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ میرے جسم میں صرف ایک جان ہے جو میں دینِ اسلام کے لئے قربان کر رہا ہوں ، مجھے تو یہ پسند تھا کہ میرے جسم میں اگر سوجانیں ہوتیں تو ایک ایک کر کے سب کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر قربان کر دیتا۔
سردار آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ ایمان افروز تقریر سن کر بہت متعجب ہوا کہ ان کے اندر اپنے دین کی کتنی محبت ہے اور یہ خوشی سے دین کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے ۔ سردار نے لالچ دیتے ہوئے کہا :
اگر تم نصرانی ہوجاؤ تو میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کر دوں گا اور حکومت میں بھی تمہیں حصہ دوں گا۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی یہ پیش کش بھی ٹھکرا دی اور صاف انکار کردیا۔
پھر اس نے کہا: اچھا اس طرح کرو کہ تم میرے سر پر بوسہ دو اگر تم یہ کروگے تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا اور تمہارے ساتھ تمہارے 80 مسلمان قیدیوں کو بھی آزاد کردوں گا ۔
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:
’’اگر واقعی تم ایسا کرو گے تو میں تمہارے سر کو بوسہ دینے کے لئے تیار ہوں۔ سردار نے یقین دہانی کرائی کہ میں اپنی بات ضرور پوری کروں گا ۔
چنانچہ، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے مسلمانوں کی آزادی کی خاطر اس ظالم کے سر کا بوسہ لیا۔ سردار نے حسبِ وعدہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اور 80 مسلمان قیدیوں کو آزاد کردیا۔
جب یہ تمام مجاہدین امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں پہنچے تو امیر المؤمنین آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سر کا بوسہ لیا اور بہت خوش ہوئے۔
(عیون الحکایات، الحکایۃ السابعۃ والاربعون بعد المائتین، ص۲۳۶-۲۳۷)
دینِ اسلام پر ثابت قدمی کی ترغیب:
ترغیب کے لئے ہم یہاں چند وہ اَسباب ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے بندہ دینِ اسلام پرثابت قدم رہتا ہے اور چند وہ چیزیں بیان کرتے ہیں جو دینِ اسلام پر ثابت قدمی سے مانع ہیں ، چنانچہ دینِ اسلام پر ثابت قدمی کے چند اسباب یہ ہیں :
*(1)* علمِ دین حاصل کرنا۔
*(2)* کثرت سے مسجد میں حاضر ہونا۔
*(3)* زبان کی حفاظت کرنا۔
*(4)* کفر اور گناہوں سے بچنا۔
*(5)* کافروں ، بد مذہبوں اور فاسق و فاجر لوگوں سے تعلقات نہ رکھنا۔
*(6)* نفسانی خواہشات کی پیروی سے بچنا۔
*(7)* مصائب و آلام اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں پر صبر کرنا۔
*(8)* اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
*(9*) لمبی امیدیں نہ رکھنا۔
*(10)* اور دنیا میں زہد و قناعت اختیار کرنا وغیرہ ،
اس کے برعکس ایمان و عمل پر ثابت قدمی سے رکاوٹ بننے والی چند چیزیں یہ ہیں۔
*(1)* علمِ دین سے بہرہ ور نہ ہونا۔
*(2)* مسجد میں حاضر ہونے سے کترانا۔
*(3)* زبان کی حفاظت نہ کرنا۔
*(4)* کفر اور گناہوں کے ذریعے اپنی جانوں پر ظلم کرنا۔
*(5)* کافروں بد مذہبوں اور فاسق و فاجر لوگوں کی صحبت اختیار کرنا۔
*(6)* نفسانی خواہشات کی لذت حاصل کرنے کی حرص ہونا۔
*(7)* مصائب وآلام اور آزمائشوں پر صبر نہ کرنا۔
*(8)* اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا۔
(9)* لمبی امیدیں رکھنا۔
*(10)* اور دنیا میں رغبت رکھنا وغیرہ۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں