نیک اعمال پر نازاں نہیں ہونا چاہئے

نیک اعمال پر نازاں نہیں ہونا چاہئے

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

 کوئی بندہ اپنے نیک اعمال پر نازاں نہ ہو بلکہ وہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر اداکرے کہ اس نے اسے نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا کی ہے اور اس کی بارگاہ میں اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کرے اور گناہوں سے بچنے کو اپنا ہنر و کمال سمجھنے کی بجائے یہ سمجھے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے اسے گناہ سے بچا لیا ہے۔ 
یاد رہے کہ اپنے اعمال پر ناز کرنا اور خود پسندی میں مبتلا ہونا بہت ساری آفات کا مجموعہ ہے۔
ان آفات کو بیان کرتے ہوئے امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’خود پسندی گناہوں کو بھول جانے اور نظر انداز کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
چنانچہ وہ بعض گناہوں کو بالکل ہی بھول جاتا ہے کیوں کہ وہ ان کی تلاش سے بے نیاز ہوجاتا ہے لہٰذا وہ بھلا دیئے جاتے ہیں اور جن گناہوں کو یاد رکھتا ہے ان کو بھی معمولی جانتا ہے اور انہیں کوئی اہمیت نہ دینے کی وجہ سے ان کے تَدارُک کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اسے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ بخش دیئے جائیں گے جبکہ اس کے برعکس عبادات اور اعمالِ صالحہ کو بہت بڑا سمجھتا، ان پر خوش ہوتا اور ان کی بجا آوری کو اللّٰہ تعالیٰ پر ایک قسم کا احسان جانتا ہے اور توفیقِ عمل کی صورت میں ملنے والی نعمت ِخداوندی کو بھول جاتا ہے، پھر جب خود پسندی کا شکار ہوتا ہے تو اس کی آفات سے اندھا ہوجاتا ہے اور جو آدمی اعمال کی آفات سے غافل ہوتا ہے اس کی زیادہ محنت ضائع ہوجاتی ہے کیوں کہ ظاہری اعمال جب تک خالص اور آمیزش سے پاک نہ ہوں ، نفع بخش نہیں ہوتے اور آفات کی جستجو وہ آدمی کرتا ہے جس پر خود پسندی کی بجائے خوف غالب ہوتا ہے اور خود پسند آدمی اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر مغرور ہوتا ہے، وہ اللّٰہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر اور اس کے عذاب سے بے خوف ہوتا ہے اور اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ایک مقام حاصل ہے ، نیز وہ اپنے اعمال کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ پر احسان جتاتا ہے حالانکہ یہ اعمال کی توفیق ملنا اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور اس کے عطیات میں سے ایک عطیہ ہے لیکن خود پسندی کی وجہ سے وہ اپنی ذات کی تعریف کرتا اور اس کی پاکیزگی ظاہر کرتا ہے اور جب وہ اپنی رائے ،عمل اور عقل پر اتراتا ہے تو فائدہ حاصل کرنے، مشورہ لینے اور پوچھنے سے باز رہتا ہے اور یوں اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر بھروسہ کرتا ہے، وہ کسی بڑے عالم سے پوچھنا اچھا نہیں سمجھتا اور بعض اوقات اپنی غلط رائے پر اتراتا ہے جو اس کے دل میں گزرتی ہے اور اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کے دل میں یہ خیال آیا اور دوسرے کی آراء کو پسند نہیں کرتا اسی لیے اپنی رائے پر اِصرار کرتا ہے، کسی نصیحت کرنے والے کی نصیحت نہیں سنتا اور نہ ہی کسی واعظ کا وعظ سنتا ہے بلکہ دوسروں کو یوں دیکھتا ہے کہ گویا وہ جاہل ہیں اور اپنی خطا پر ڈٹ جاتا ہے اگر اس کی رائے کسی دنیوی معاملے میں ہو تو اسے اس پر یقین ہوتا ہے اور اگر اُخروی معاملے بالخصوص عقائد سے متعلق ہو تو اس کے باعث تباہ ہوجاتا ہے جبکہ اگرایسا شخص اپنے نفس پر تہمت لگاتا ، اپنی رائے پر اعتماد نہ کرتا، نورِ قرآن سے روشنی حاصل کرتا ، علماءِ دین سے مدد لیتا، علم کے پڑھنے پڑھانے میں مصروف رہتا اور اہلِ بصیرت سے مسلسل پوچھتا رہتا تو یہ بات اسے حق تک پہنچادیتی۔ 
(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان آفۃ العجب، ۳ / ۴۵۳)

 اللّٰه تعالیٰ ہمیں خود پسندی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰه علیہ وسلم

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے