حضرت مولانا پیر غلام مجدد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا پیر غلام مجدد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسمِ گرامی:پیر غلام جان مجددی۔
لقب: مجددی، سرہندی۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے: علامہ مولانا پیر غلام مجدد بن عبدالحلیم بن عبدالرحیم بن خواجہ محمد ضیاء الحق بن خواجہ غلام نبی بن خواجہ غلام حسن بن خواجہ غلام محمد بن خواجہ غلام معصوم بن خواجہ محمد اسماعیل بن خواجہ محمد بن خواجہ محمد معصوم بن امام ربانی شیخ احمد سرہندی۔
علیہم الرحمۃ والرضوان۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 6/رجب المرجب 1300ھ،مطابق 14/مئی 1883ء،بروز پیر بوقتِ صبح صادق علاقہ "مٹیاری" ضلع حیدرآباد میں ہوئی۔ اب مٹیاری خود ایک ضلع بن چکا ہے۔

تحصیلِ علم: چار سال کی عمر میں آپ کی رسم بسم اللہ آپ کے جد امجد خواجہ عبدالرحیم نے کرائی، قرآن پاک آپ نے قاری عبدالرحمن متعلوی سے پڑھا، فارسی کی تعلیم جناب عزیز اللہ خان سلیمان خیل قندھاری سے اور عربی کی تعلیم علامہ محمد حسن اللہ صدیقی پاٹائی سے مٹیاری کی درگاہ شریف میں ہی حاصل کی ، سترہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوگئے۔ آپ کے والد گرامی نے تین سو علماء کی موجودگی میں آپ کو دستار فضیلت عطا فرمائی۔ اسی (80) علماء کے اجتماع میں آپ نے پہلی بار تقریر فرمائی جس کو سن کر علماء بھی عش عش کر اٹھے۔ مکۃ المکرمہ میں علامہ سید علی بن ظاہروتری اور حضرت مولانا عبدالحق الہ آبادی مہاجر مکی سے بطورِ برکت کتب حدیث پڑھیں اور سند حاصل کی۔ عمدہ عمدہ کتابوں کا آپ کو بہت شوق تھا، یہی شوق تھا جس کے باعث آپ نے مدینہ منورہ سے اسی ہزار روپے کی نایاب کتابیں خرید فرمائیں۔ آج بھی آپ کے کتب خانے پر آپ کی خریدی ہوئی نایاب کتابوں کا ایک عظیم ذخیرہ موجود ہے۔

بیعت و خلافت: آپ کو اپنے جد امجد خواجہ عبدالرحیم سے شرف بیعت حاصل تھا، اور اجازت و خلافت اپنے والد گرامی خواجہ عبدالحلیم سے حاصل تھی آپ کا سلسلہ طریقت اور سلسلہ نسب ایک ہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔

سیرت و خصائص: شیخ الوقت، عالمِ ربانی، عارف اسرار یزدانی، صاحبِ علم و تقویٰ، خانوادۂ مجدد الفِ ثانی کے بطلِ جلیل حضرت علامہ مولانا پیر غلام جان سرہندی نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی زندگی ایک مومنانہ و مجاہدانہ تھی۔ سیرت و کردار، علم و عمل، تقویٰ و طہارت، ہمدردی و اخوت تمام معاملات میں یادگارِ اسلاف تھے۔ جذبۂ حریت وغیرت آپ کی رگ و خون میں شامل تھا۔ یہی وجہ ہےکہ آپ نے انگریزوں کے خلاف اور مسلمانوں کی حمایت میں تمام تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کیا۔

فرنگیوں سے نفرت: آپ کو فرنگیوں اور انگریزوں سے اور ان کی حکومت سے سخت نفرت تھی۔ آپ کو بڑی بڑی پیشکشیں کی گئیں ،لیکن آپ نے سب کو ٹھکرا دیا۔ تحریکِ خلافت کے دوران آپ بذریعہ ریل دورے پر جارہے تھے کہ راستے میں انگریز کلکٹر مسٹر گپس نے آپ کو دیکھ کر آپ کیلئے شربت منگوایا لیکن آپ نے اس کا منگایا ہوا شربت پینے سےانکار کردیا اور فرمایا
"کہ اگر اس گلاس میں شربت کی جگہ تمہارا خون ہوتا تو میں ضرور پیتا اسلئے کے تم ہمارے ترک بھائیوں کا خون پی رہے ہو" یہ سن کر انگریز کلکٹر کھسیانا سا ہو کر کہنے لگا کہ "شاید ان پر مذہبی جنون غالب آگیا ہے۔"

*قید و بند:* ترک موالات کی تحریک میں آپ نے بھر پور حصہ لیا اور سندھ کے چپہ چپہ پر جلسے کرکے انگریزوں کے مکرو فریب سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ کراچی کی عظیم کانفرنس میں انگریزوں کے خلاف جو فتویٰ صادر کیا گیا تھا اس میں علی برادران ، مولانا نثار احمد کانپوری کے علاوہ چھٹے نمبر پر آپ کے دستخط بھی تھے۔ اس جرم کی پاداش میں خالق دینا ہال کراچی میں آپ پر مقدمہ چلایا گیا اور آپ کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی سزا سننے کے بعد آپ نے فرمایا کہ قید تو میرا ورثہ ہے کیوں کہ میں غلامِ مجدد اور اولاد ِمجدد ہوں جن کو جہانگیر بادشاہ نے قلعہ گوالیار میں نظر بند کردیا تھا۔ پھر ارشاد فرمایا:
" کاش! آج مجھ پر یہ مقدمہ ہوتا کہ میں نے وقت کے انگریز بادشاہ جارج پنجم کو قتل کیا ہے اور اس کے خون سے میرے ہاتھ رنگے ہوتے"۔ آپ نے بڑے تحمل سے یہ دو سال کا عرصہ جیل میں گزارا اور اس عرصہ میں قرآن پاک پورا حفظ کر لیا۔آپ نے جیل میں بڑی بڑی صعوبتیں برداشت کیں ، سردی کی راتوں میں آپ کی کوٹھڑی کے اندر ٹھنڈا پانی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ تاکہ آپ ساری رات کھڑے ہو کر گزاریں اور نماز نہ پڑھ سکیں، بتیاں بند کر دی جاتی تھیں تاکہ آپ تلاوت قرآن پاک نہ کر سکیں ۔
*ملی خدمات:* تحریک ہجرت ہو یا تحریک خلافت ، تحریک انجمن ہلال احمر ہو یا تحریک مسجد منزل گاہ ، تحریک ترک موالات ہویا تحریک پاکستان آپ نے ہر سیاسی اور مذہبی تحریک میں بھر پور کردار ادا کیا۔ انجمن ہلال احمر کے لئے صرف مٹیاری سے بارہ ہزار روپے جمع کروایا۔ انجمن خدام کعبہ کی تحریک کے لئے تمام سندھ سے ہزاروں روپے جمع کرکے بمبئی علی برادران کو بھیجوایا آپ ایک عرصہ تک جمعیت علمائے ہند کے سر کردہ رہنما رہے لیکن جب علماء اہل سنت نے جمعیت سے استعفی دیا تو آپ بھی مستعفی ہو گئے تھے ۔ آپ نے ہندووں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ ہندوو ں کے کچھ قرض آپ کے ذمہ تھے انہوں نے کہا کہ اگر آپ کانگریس میں شامل ہو جائیں تو ہم تمام قرضہ معاف کر دیں گے ورنہ ڈگری جاری کروادیں گے اس کے جواب میں آپ نے اپنی زمین فروخت کرکے ان کے قرضے اتار دیئے مگر اپنے ایمان کا سودانہ کیا۔

تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کی آپ نے ہر طرح سے بھر پور مدد کی اور اس کی ترقی کے لئے بھر چونڈی شریف کے پیرمولاناعبدالرحمن قادری اور عبدالرحیم شہید کے ہمراہ آپ نے پورے سندھ کا دورہ کیا۔ آپ نے اپنی ساری زندگی ر شدو ہدایت اور تبلیغ میں گزاری ہر مذہبی تحریک میں آپ پیش پیش نظر آتے تھے۔ مسجد کانپور کا جھگڑا ہوا تو مولانا محمد علی جوہر نے تار دےکر آپ کو بلایا آپ فورا ً کانپور پہنچے اورفیصلہ ہونے تک وہیں رہے اور ڈٹ کر حکومت وقت کا مقابلہ کیا۔

پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے مہاجرین کی آمد پر آپ نے اپنا گھر خالی کر دیا اور اس میں ان کو بسایا حتیٰ کے سونے کیلئے بستر اور کھانے پینے کے برتن تک ان کے استعمال کیلئے دے دیئے ۔ ان کے لئے مکانوں کا بندوبست فرمایا ان کو رہائش کے لئے سہولتیں مہیا کیں ۔حیدر آباد میں سب سے پہلے "سلاوٹ پارے سے عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس "کی ابتدا آپ ہی نے فرمائی ۔ حیدر آباد شہر کی سب سے بڑی جامع مسجد آزاد میدان کی بنیاد بھی حضرت مفتی محمد محمود الوری کے ساتھ مل کر آپ ہی نے رکھی اور اس کی پہلی کمیٹی کے سب سے پہلے صدر بھی آپ ہی تھے۔الغرض آپ کی تمام زندگی ایک مجاہدانہ زندگی تھی۔خطۂ باب الاسلام سندھ آپ کی برکت وروحانیت سےفیض یاب ہوا۔

*تاریخِ وصال:* آپ کا وصال بروز منگل صبح نو بجے 16/جمادی الاخری 1377ھ، مطابق 7/جنوری 1958ءکو حیدرآباد میں ہوا۔ پھر آپ کو حسبِ وصیت "مٹیاری" میں سپردِ خاک کیا گیا۔

وفات سےقبل اپنے جد امجد خواجہ ضیاء الحق کے یہ اشعار آپ کے وردِ زبان تھے۔

بصدیقیت خریدارم عمر را دوست میں دارم
 چہارم حیدر صفدر کہ باشد ساقی کوثر

فدا سازم دل و جاں را بعثمان یارسول اللہ
 اما ماں را شوم چاکر بایقاں یارسول اللہ


ماخذومراجع: انوار علمائے اہلسنت سندھ۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب📝 شمـــس تبـــریز نـــوری امجـــدی 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے