📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
----------------------------------------------
🕯محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد سردار احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسمِ گرامی: مولانا محمد سرداراحمد چشتی قادری رضوی۔
کنیت: ابوالفضل۔
لقب: محدثِ اعظم پاکستان۔
والد کا اسمِ گرامی : چودھری میراں بخش چشتی علیہ الرحمہ ہے۔
تاریخِ ولادت: آپ قصبہ دىال گڑھ ضلع گورداس پور(مشرقى پنجاب،انڈیا) میں پیدا ہوئے، آپ کى تارىخ ولادت 29 جمادی الاخریٰ 1321ھ بمطابق 22 ستمبر 1903ء ہے۔
تحصیلِ علم: محدث اعظم پاکستان نے ابتدائی تعلیم پرائمری تک موضع دیال گڑھ میں حاصل کی 1343ھ؍1942ء میں اسلامی ہائی اسکول بٹالہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایف اے کی تیاری کے لیے لاہور تشریف لائے۔ انہی دنوں مرکزی انجمن حزب الاحناف لاہور کے زیر اہتمام مسجد وزیر خاں میں ایک عظیم الشان اجلاس ہوا۔ جس میں پاک وہند کے کثیر التعداد علماء ومشائخ کے علاوہ شہزادۂ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ بھی شریک ہوئے۔
محدث اعظم پاکستان حضرت حجۃ الاسلام کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انگریزی تعلیم، کو خیر آباد کہہ کر مرکز علوم و معارف بریلی شریف چلے گئے۔
حضور مفتی اعظم ہند ،حضور حجۃ الاسلام اور صدر الشریعہ اور مولانا محمد حسین وغیرہ (علیہم الرحمہ) سے علمی استفادہ کیا۔ فیضِ رضا سے ایک وقت ایسا آیا کہ دنیا میں محدثِ اعظم پاکستان کے نام معروف ہوگئے۔
*بیعت و خلافت:* حضرت محدث اعظم پاکستان سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت شاہ محمد سراج الحق چشتی کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے،اور سلسلہ قادریہ رضویہ میں شہزادۂ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں علیہ الرحمہ سے فیض یاب ہوئے۔ اور حضور مفتی اعظم الشاہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری علیہ الرحمہ اور حضور صدرالشریعہ نے جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمائی ۔
*سیرت و خصائص:* آپ کی والدہ ماجدہ فرمایا کرتیں:
تمہارا نام سردار ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں دین و دنیا کا سردار بنائے۔ بالآخر وہ وقت بھی آیا اور دنیا نے دیکھ لیاکہ والدہ محترمہ کی دعا کس طرح قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپکو اسم با مسمی ٰبنا دیا۔ محدثِ اعظم پاکستان، شیخ الحدیث والتفسیر، جامع المعقولات والمنقولات، رہبر شریعت وطریقت،آفتابِ رضویت ،محبوبِ خانوادۂِ اعلی ٰحضرت ،حضرت علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد چشتى قادرى رضوی رحمۃ اللہ علیہ ۔
آپ بیک وقت بلند پایہ مدرس، بے مثال محدث ، خوش بیان مقرر، عظیم محقق اور متدین (دیانت دار) مفتى تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ علیہ الرحمہ عاشقِ رسولﷺ اور متبع شریعت تھے۔
حدیث پڑھتے پڑھاتے ہوئے جھومتے جاتے اور عشق ِمصطفےٰ ﷺ میں آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے اس غایت درجہ کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگائیے۔
ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: جب لوگ بیمار ہوتے ہىں ، بخار یا سر درد ہوتا ہے تو وہ دوائى کھاتے ہىں، لیکن مجھے تکلیف ہوتى ہے تو میں ذکرِ مصطفیٰ ﷺکرتا ہوں اور حدیثِ مصطفےٰ ﷺٰ پڑھاتا ہوں جس سے مجھے آرام آجاتا ہے۔ یہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کاجذبہ تھا کہ آپ نے کبھی بھی کسی بدمذہب سے ہاتھ نہیں ملایا۔ اگر کوئی بدمذہب ہاتھ ملانے کی کوشش بھی کرتا تو محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے نور کی بدولت آپکو اسکی بدعقیدگی معلوم ہوجاتی ،آپ اپنا ہاتھ کھینچ لیتے تھے۔ آپ ان ہاتھوں پر فخر کیا کرتے تھے ،کہ انہوں نے حضور ﷺ کی محبت میں کبھی کسی گستاخ کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں ۔
؎ خدا رحمت کند ایں عاشقان ِ پاک طینت را۔
حافظِ ملت مولانا عبد العزیز مبارک پوری علیہ الرحمہ دورانِ تعلیم آپ کے تقویٰ و طہارت اور اتباع ِ سنّت کو نہایت شاندار الفاظ میں یوں بیان فرماتے ہیں :
خوفِ الٰہی و خشیت ِ ربانی ،زہد و تقویٰ ،اتباع ِ سنّت آپ کی طبیعت بن چکی تھی ہر قول و فعل تمام حرکات و سکنات نشست وبرخاست میں اتباعِ سنّت ملحوظ رکھتے۔ بلا ناغہ اسباق کے مطالعہ مىں انہماک، کم کھانا، کم سونا اور شب و روز تحصىلِ علم مىں مصروف رہنا آپ کا معمول تھا۔
*وصال:* 1 شعبان 1382ھ بمطابق 29 دسمبر 1962ء ہفتہ کى درمیانى رات ایک بج کر چالیس منٹ پر عالم اسلام کى فضاؤں کو اپنى نورانى کرنوں سے منور کرنے والا رشد و ہداىت کا مہرِ منیر "اللہ ھو" کى آواز کے ساتھ اپنے پیارے حبیب ﷺ کے دربار میں پہنچ گیا۔ اسٹیشن سے جامعہ رضویہ تک راستہ میں ہزاروں افراد نے دیکھا کہ جنازہ پر نور کی پھوار پڑ رہی ہے، حالانکہ بادل کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں