🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ
(۲ ) پوری دنیا کے مفتیان کرام کا فتوٰی ہے کہ چاند نہیں ہوا اور یہ فتوٰی موجودہ دور کے وسائل کے ذریعے مثلا واٹسپ ۔ فیس بک وغیرہ کے ذریعے حاصل ہوئی لیکن کچھ علماء کرام نے رمضان کا چاند دیکھا پھر کچھ علمائے کرام کی جماعت نے ضلع قاضی کی اجازت سے ان چاند دیکھنے والوں سے شہادت لی اور ضلع قاضی نے اسکی تصدیق فرمائی تو ان لوگوں پہ رمضان کا روزہ فرض ہے؟
یا جمہوریت جہاں حقیقت نہیں کثرت دیکھی جاتی ہے پہ عمل کرتے ہوئے روزہ نہ رکھنا واجب ہے؟
امید ہے کہ جواب سے نواز کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے
محمد ممتاز رضا
خادم تنظيم اہلسنت ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ
02/04/2020
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *الجواب* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفروضہ روزہ ماہ رمضان المبارک کے ساتھ خاص ہے-
لقولہ تعالی *"یاایہاالذین آمنوا کتب علیکم الصیام"* اور ماہ رمضان شریف اور دیگر مہینوں کا پایا جانا رؤیت ہلال یا طرق اثبات ہلال پر موقوف ہے ، خاص طور سے رمضان شریف کے روزہ ہی کے متعلق آقاۓ کاںٔنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا !
*اذا رأیتم الھلال فصوموا و اذا رأیتموہ فافطروا*۔
*ترجمہ*- جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب تم چاند دیکھو تو افطار( عید) کرو۔
((بخاری شریف ج ١ص ٢٥٦))
اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے!
*عن ابی ھریرة رضى الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال صوموا لرؤيته وافطروا لرؤيته فإن غمى عليكم فاكملوا العدة ثلاثين*-
*ترجمہ*- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاند دیکھنے پر روزہ رکھو اور چاند دیکھنے پر عید کرو ، اور اگر موسم ابر آلود ہو تو تم پرتیس کی گنتی پورا کرنا ضروری ہے ۔
((صحیح مسلم شریف ج ١ ص ٣٤٧))
جن علماء نے رمضان کا چاند دیکھا اور قاضی ضلع کے بھیجے ہوئے علماء کے رو برو شہادت دی پھر قاضیٔ ضلع نے اس شہادت کو برقرار رکھتے ہوئے رؤیت ہلال کا اعلان کر دیا تو اس قاضی کے حلقۂ قضاء میں مکلف افراد پر روزہ فرض ہوا۔
قرآن مجید میں ہے!
*فمن شھد منکم الشھر فلیصمه*۔
*ترجمہ*۔ پس تم میں سے جو شخص بھی اس مہینہ کو پاۓ وہ اس میں ضرور روزہ رکھے۔
درمختار ج ١ ص ١٤٩ پر ہے!
*یلزم اھل المشرق برؤیة اهل المغرب اذا ثبت عندهم رؤية بطريق موجب*-
*ترجمہ*- اہل مشرق پر اہل مغرب کی رؤیت کی وجہ سے روزہ رکھنا لازم ہے جبکہ بطریق موجب ان کے نزدیک رؤیت ثابت ہوںٔی ہو ۔
اور حدیقہ ندیہ میں ہے!
*اذا خلا الزمان من سلطان ذی کفایة فالامور مؤكلة إلى العلماء و يلزم الامة الرجوع اليهم و يصيرون ولاية فإذا عسر جمعهم على واحد استقل كل قطر باتباع علماںٔه فان كثروا فالمتبع اعلمهم فان استووا قرع بينهم*-
*ترجمہ*- جب زمانہ ایسے سلطان سے خالی ہو جو معاملات شرعیہ میں کفایت کر سکے تو شرعی سب کام علماء کے سپرد ہوں گے اور مسلمانوں پر لازم ہو گا کہ اپنے ہر معاملہ شرعیہ میں ان کی طرف رجوع کریں وہ علماء ہی قاضی و حاکم سمجھے جاںٔیں گے پھر اگر سب مسلمانوں کا ایک عالم پر اتفاق مشکل ہو تو ہر ضلع کے لوگ اپنے علماء کی اتباع کریں گے ، اگر ضلع میں عالم کثیر ہوں تو جو سب میں احکام شریعت کا علم رکھتا ہے اس کی پیروی ہو گی اور اگر علم میں برابر ہوں تو ان میں قرعہ ڈالیں۔
((ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ج ١٠ ص ٤١٣))
ہاں جہاں چاند نظر نہیں آیا اور شہادت شرعیہ کے ذریعہ رؤیت ہلال کا ثبوت بھی نہ ہو سکا وہاں پر رمضان شریف کا روزہ رکھنا فرض نہیں وہاں کے مسلمان تیس کی گنتی پوری کر کے روزہ رکھیں۔
جن جن دارالافتاء نے چاند کی عدم رؤیت کا اعلان کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تک شرعی شہادت نہیں پہنچ سکی اصلا وہ مورد الزام نہیں۔
وہاٹسپ ، فیس بک ، ٹوںٔیٹر وغیرہ سے موصول ہونے والی خبر عند الشرع مقبول نہیں اور نہ اس پر عمل جاںٔز ۔
*خلاصۂ بحث* جہاں پر رؤیت ہلال شرعی طریقوں سے ثابت ہے وہاں پر رمضان کا روزہ فرض اور جہاں ثابت نہ ہو سکی وہاں فرض نہیں۔ والله تعالیٰ اعلم بالصواب۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
*کتبہ۔ رضوان احمد مصباحی رامگڑھ*۔
📱
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں