جدید ذرائع ابلاغ سے رؤیت ہلال کا ثبوت ہو گا یا نہیں؟

*🌺جدید ذرائع ابلاغ سے رؤیت ہلال کا ثبوت ہو گا یا نہیں؟🌺*

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں 

(۳ ) ایک شخص کو رویت ہلال کا صد فیصد یقین موجودہ دور کے وسائل جیسے واٹسپ فیس بک وغیرہ کے ذریعے حاصل ہوئے پر ہے مگر دوسری طرف کچھ علماء کرام چاند دیکھنے کے عینی شاہد ہوں تو قرب و جوار کے لوگ کس پر عمل کریں موجودہ دور کے وسائل کے ذریعے حاصل شدہ ادارے کے اعلان پر یا علمائے کرام کے عینی شہادت مزید قاضی کے تصدیق پر 
امید ہے کہ جواب سے نواز کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں گے 
محمد ممتاز رضا 
خادم تنظيم اہلسنت ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ 
02/04/2020

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *الجواب* ۔۔۔۔۔۔۔۔‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے آپ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ موجودہ دور کے وسائل مثلاً وہاٹسپ ، فیس بک ، ٹیلی گرام ٹویٹر ، میسنجر وغیرہ سے موصول ہونے والی خبر کا شرع شریف میں کچھ اعتبار نہیں۔ اس لئے کہ یہ نہ رؤیت ہے نہ شہادت بلکہ محض خبر ہے جب کہ ثبوت ہلال کا دار و مدار رؤیت ہلال اور مشاہدہ پر ہے نہ کہ مجرد خبر پر۔
نبیٔ آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے!
*لا تصوموا حتیٰ تروا الھلال ولا تفطروا حتیٰ تروہ فان غم علیکم فاقدروا له*-
*ترجمہ*- چاند دیکھے بغیر روزہ نہ رکھو اور افطار (عید) نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند چھپا رہے تو اس کا حساب کر لو ۔
((بخاری شریف ج ١ ص ١١٩)) 
اور ایک دوسری روایت میں ہے!
*الشھر تسعة و عشرون ليلة فلا تصوموا حتى تروه فان غم عليكم فاكملوا العدة ثلاثين*-
*ترجمہ*- بعض مہینے انتیس دن کے ہوتے ہیں تو تم روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو اور اگر چاند مخفی رہ جائے تو تم اس کی مدت تیس پوری کر لو۔ 
ان احادیث کریمہ کے تحت بحر العلوم علامہ و مفتی عبد المنان اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے مندرجہ ذیل امور ظاہر ہوۓ۔
*(١) ثبوت ہلال کا دار و مدار رؤیت ہلال اور مشاہدہ پر ہے۔*
*(٢) اگر انتیس تاریخ کو چاند نظر نہ آیا تو وہاں کے لوگ تیس دن پورے کر کے روزہ رکھیں۔*
*(٣)عدم رؤیت (یا شرعی شہادت نہ ملنے۔ت) کی صورت میں تیس دن مکمل کر کے روزہ رکھنے یا چھوڑنے والے ( عید کرنے والے) شرعاً مجرم نہ ہوں گے۔*
*(٤) شریعت کے نزدیک پوری دنیا یا مشرقی اور مغربی کرہ میں تمام مسلمانوں کا ایک ساتھ عید منانا ضروری نہیں۔ غالباً اسی لئے چاند دیکھنے والوں پر اداۓ شہادت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ، نہ دیکھنے والوں پر۔۔۔۔۔۔۔ ذمہ داری نہیں ڈالی گئی۔*
((فتاویٰ بحر العلوم ج ٢ ص ٢٤٠))
نیز آپ تحریر فرماتے ہیں کہ!
*ہر جگہ ایک ہی روز شرعاً عید ہونا کچھ ضروری نہیں۔ رہ گیا ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، تار ، ٹیلیفون اور خط وغیرہ کی خبر ان پر روزہ یا عید منانا جائز نہیں۔* ( ایضا ص ٢٦١)
 *کما صرحه الشيخ الامام احمد رضا خان رحمة الله تعالى عليه فى فتاوى الرضوية الجزء العاشر*۔
 اور ان کے علاوہ جماہیر علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مذکورہ بالا وسائل کا شرع میں کچھ اعتبار نہیں۔ 
((کتب فتاویٰ حوالہ جات سے بھری پڑی ہیں۔))
پس جہاں کہیں شرعی شہادت کے ذریعہ رؤیت ہلال ثابت ہو جائے وہاں اعتبار اصلا اسی کا ہوگا نہ جدید ذرائع ابلاغ کا۔ مجدد دین و ملت حضور سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے اثبات ہلال کے سات طریقے تحریر فرماۓ ہیں۔ آپ تفصیل وہاں سے دیکھ لیں۔
 ((فتاویٰ رضویہ ج ١٠ص ٤٠٨/ رسالہ طرق اثبات ہلال/ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی کتاب جدید ذرائع ابلاغ سے رؤیت ہلال کے ثبوت کی شرعی حیثیت))

*"اقول"*
*مگر فی زماننا مطلقاً جدید ذرائع ابلاغ مثلاً وہاٹسپ ، فیس بک ، ٹیلی گرام ، ٹیلی ویژن، ٹویٹر ، موبائل فون، میسنجر وغیرہ سے صرف نظر بھی نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ آج سبھی مرکزی اداروں کی جانب سے جو بھی اعلان نشر کیا جاتا ہے مکمل اہتمام یعنی ادارے کا لیٹر ہیڈ پرقاضیٔ شرع کے دستخط اور مہر کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ اعلان چاند کی رؤیت کا ہو خواہ عدم رؤیت کا یا کسی اور چیز کا .سب سے پہلے ان ہی مذکورہ بالا وسائل کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے اور پورا ملک تو نہیں مگر صوبے کے اکثراہل بلاد و قریہ اسی اعلان پر روزہ رکھتے ہیں اور عید مناتے ہیں شہادت ملی یا نہیں ملی اس سے کوئی سروکار نہیں ( میں یہ نہیں کہتا کہ ان کا یہ فعل درست ہے مگر) اس لئے ان کے ذریعے ہونے والے اعلان کو کم از کم ایک قاضی کی حدود قضاء جہاں تک ہے ان کے حلقۂ قضاء میں نافذ مانا جاناچاہئے۔ جس طرح کہ قدیم زمانے میں ثبوت رؤیت ہلال کے بعد اعلان ہلال کے لئے شہر میں نگاڑے بجائے جاتے ، توپ داغے جاتے یا قندیلیں روشن کی جاتیں جس سے حوالیٔ شہر اور دیہات کے لوگ سمجھ جاتے کہ چاند ہو گیا ہے اور یہی اعلان ان کے روزہ یا عید کے لئے کافی سمجھا جاتا۔کما لا یخفی ذوالعلم فتدبر-* 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *رؤیت ہلال سے متعلق فقیر کا ادنیٰ مشورہ*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر صوبے کےمرکزی اداروں کی جانب سے ضلع بضلع رؤیت ہلال کمیٹی کی تشکیل کی جاۓ اور قاضی منتخب کںٔے جاںٔیں۔ مثلاً جھارکھنڈ کا مرکزی ادارہ، ادارۂ شرعیہ رانچی ہے تو ادارۂ شرعیہ رانچی کی طرف سے ہر ضلع میں ایک رؤیت ہلال کمیٹی کی تشکیل ہو اور قاضی مقرر کںٔے جاںٔیں جو ہر ماہ اپنے اپنے ضلعے ، شہروں ، دیہاتوں اور مضافات میں چاند دیکھنے کے اہتمام کریں کراںٔیں رؤیت ہوتے ہی ایک دوسرے کو جلد از جلد خبر کریں تاکہ شہادت شرعی فوری طور پر لاںٔی جا سکے ، اور افواہی خبروں سے بچا جا سکے۔
 واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

*کتبہ - رضوان احمد مصباحی رامگڑھ*

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے