مسجد کی زمین معاوضہ پر دینا کیسا

🖊️مسجد کی زمین معاوضہ پر دینا کیسا؟🖊️

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ
 وَبَرَكاتُهُ‎ کیافرماتے ہیں علماےکرام اس مسںٔلہ میں کہ کسی کمپنی کو ارض مسجد وقبرستان کوںٔلہ نکالنے کے لئےمعاوضہ لے کر دیناکیسا ھے نیز معاوضہ کے حقدارکون ہونگے حکم شرع بیان فرماںٔیں۔ 
مولانا محمد یعقوب مصباحی چترا۔

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *الجواب* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
ارض مسجد یا قبرستان سے مراد مسجد یا قبرستان کی وہ زمین ہے جو مسجد یا قبرستان کے لئے ہی وقف ہے تو پھر اس کو معاوضہ لے کر کسی کمپنی کو دینا ناجائز و حرام ہے۔ 
درمختار علی ردالمحتار ج ٣ ص ٤٥٦ پر ہے!
*شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل به اھ مختصراً*۔

ہدایہ میں ہے!
*اذا صح الوقف لم یجز بیعه ولا تمليكه أما امتناع التمليك فلما بينا من قوله عليه السلام تصدق باصلها لا يباع ولا يورث ولا يوهب*۔ 
(📗ہدایہ کتاب الوقف ص٦٤٠)

اور فتاوی شامی میں ہے!
*لا یملک ای لا یکون مملوکا لصاحبه و لا يملك أى لا يقبل التمليك لغيره بالبيع و نحوه لاستخلة تمليك الخارج عن ملكه ولا يعار و لا يرهن لاقتضاںٔھما الملک*۔
(📗فتاویٰ شامی کتاب الوقف ج٤ ص ٣٥٤کراچی)
اور در مختار میں ہے!
*فاذا تم و لزم لا یملک ولا یملک ولا یعار ولا یرھن*۔
اور فتاوی عالمگیری میں ہے!
*ولو کان الوقف مرسلا لم یذکر فیه شرط الاستبدال لم يكن له ان يبيعها و يستبدل لها وان كانت أرض الوقف سبخة لا ينتفع بها*۔ 
(📗فتاویٰ عالمگیری ج ٢ص٤٠١)

حضور مفتیٔ اعظم ہند علامہ محمد مصطفیٰ رضا خان قادری علیہ الرحمۃ والرضوان سے ایک سوال کیا گیا کہ کیا کسی متولی کو یہ حق حاصل ہے کہ ہزاروں کی جاںٔیداد موقوفہ کے عوض دو تین سو روپے مقصد خیر کے واسطے لے کر شخص واحد کی ملکیت بنا دے؟

آپ جواباً تحریر فرماتے ہیں کہ!
*نا متولی کو نا خود واقف کو کسی کو یہ اختیار نہیں ہے۔ "فان الوقف لا یباع ولا یرھن" نہ ہزاروں کی جاںٔیداد تین سو کے عوض کسی کو دی جا سکتی ہے نہ سیکڑوں کی جاںٔیداد ہزاروں لاکھوں کے عوض جس مقصد کے لئے واقف نے وقف کی ہے جاںٔیداد اسی کے لئے رہے گی الخ*
(📗فتاویٰ مصطفویہ ج ١ص ٣٨٤)

اور بحرالعلوم حضرت علامہ عبد المنان اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ!

*مسجد سے متصل مسجد کی زمین کا مطلب اگر یہ ہے کہ وہ زمین مسجد ہی پر وقف تھی تو اس کا بیچنا خریدنا سب ناجائز و حرام ہوا۔*۔
(📗فتاویٰ بحر العلوم ج٥ ص ١٢٠)
اور اگر وہ زمین مصالح مسجد کے لئے یا اس کی غرض مسجد کی آمدنی کا حصول ہو تو پھر معاوضہ لے کر کمپنی یا کسی دوسرے شخص کو دیا جا سکتا ہے۔
بحر العلوم علامہ عبد المنان اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ!
*مسجد کی ایسی زمین جو اس کی آمدنی کی غرض سے حاصل ہو مدرسہ چلانے کے لئے اس کو کرایہ پر لے کر اس میں مدرسہ چلایا جا سکتا ہے اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ فتاویٰ رضویہ ج ٦ ص٥٢٢ پر ہے" وقف کے اجارہ میں متولیوں کو وقف کا فائدہ مد نظر ہونا چاہئے*۔
(📗فتاویٰ بحر العلوم ج٥ ص ١٠٨)

۔ والله تعالیٰ اعلم بالصواب۔

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁


*کتبہ۔ رضوان احمد مصباحی رامگڑھ۔*


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے