رمضان اور لاک ڈاؤن چند گزارشیں

رمضان اور لاک ڈاؤن___چند گزارشیں

تحریر : نثار مصباحی

کرونا وائرس کی وجہ سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے. لگاتار 38 دن سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے چند قِسم کی چیزوں کے سوا سارے کاروبار معطل ہیں. ظاہر ہے آمدنی کے سارے وسائل بھی بند ہیں سواے کچھ ملازمتوں کے. 
ہر روز کمانے کھانے والوں کی اکثریت آج دوسروں کے سہارے دو وقت کی روٹی پا رہی ہے. بہت سے لوگ بھوکے پیاسے مَر رہے ہیں.
ادھر کرونا کے مریضوں کی تعداد ہر روز بڑھنے کے باوجود حکومت نے اچانک رمضان کے پہلے ہی دن سے دُکانیں/مارکیٹ کھولنے کی اجازت دے دی ہے. (سواے سِنگل برانڈ اور ملٹی برانڈ مال Mall کے)
دنیا جانتی ہے کہ ایک مسلمان سال بھر میں سب سے زیادہ خرچ رمضان کے مہینے میں کرتا ہے. رمضان اور عید کی خریداریوں کی وجہ سے ہر دکان پر بھیڑ ہوتی ہے. اہم اور مشہور دکانوں پر بےتحاشا بھیڑ ہوتی ہے.
ایسے حالات میں اگر ہم نے سمجھ داری سے کام نہیں لیا تو پوری قوم پر دوہری مار پڑے گی.
ایک طرف ہماری بھیڑ کو کرونا پھیلنے کا سبب قرار دے دیا جائے گا. اور یہ وبا پھیلانے کی پوری ذمے داری مسلمانوں کے سَر ڈال دی جائے گی. 
اور دوسری طرف رمضان اور عید کی خریداریوں میں ہمارا بےتحاشا پیسہ خرچ ہوگا جو آڑے وقتوں میں ہمارے اور ہماری قوم کے ضرورت مندوں کے کام آ سکتا تھا. اس طرح مال داروں کے ہاتھ بھی خالی ہو جائیں گے. 
اگر یہ لاک ڈاؤن لمبا ہوا یا روزگار پٹری پر آنے میں وقت لگا تو یہی پیسے آگے ہمارے کام آئیں گے. 
ویسے یہ تقریبا یقینی ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد کاروباری حالت فوراً نہیں سدھر جائے گی.
اس لیے پوری قوم سے گزارش ہے کہ یہ رمضان پوری سمجھ داری کے ساتھ گزاریں. 
صرف اہم گھریلو چیزیں اور نہایت ضروری سامان ہی خریدیں. ہر سال کی طرح رمضان میں اس بار ہاتھ کھول کر خریداری نہ کریں. 
بلاضرورت بازاروں اور دُکانوں کی طرف نہ جائیں. لاک ڈاؤن کے دوران بلا ضرورت باہر آپ نکلیں گے, بدنام آپ کی پوری قوم اور پیارے دین کو کیا جائے گا.  
مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا. دو منہ والے سانپ آپ کو بار بار ڈسنا چاہ رہے ہیں. اس سے پہلے بھی کرونا پھیلنے کا ذمے دار مسلمانوں کو ٹھہرانے کی بھر پور کوشش ہو چکی ہے, جس کے نتیجے میں پورے ملک میں اسلاموفوبیا کی ایک نئی لہر دیکھی گئی. بہت سی جگہوں پر مسلم سبزی فروشوں تک پر حملے ہوئے, مسلمانوں سے کچھ بھی نہ خریدنے کی مہم چلائی گئی اور اب بھی چلائی جا رہی ہے تاکہ مالی اعتبار سے اور بھی زیادہ کمزور کیا جا سکے. نقاب پوش خواتین اور ٹوپی لگائے مَردوں کی نئی اور پرانی تصویریں وائرل کرکے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ مسلمان لاک ڈاؤن کی پابندی نہ کرکے کرونا پھیلا رہے ہیں.
ایسے حالات میں رمضان اور عید کی خریداری سے آپ نہ صرف ان کے مقصد پورے کر رہے ہوں گے جو آپ کی بربادی چاہتے ہیں, بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی غیرضروری خریداری کے نتیجے میں آپ کا پیسہ انہی سماج دشمن عناصر تک جا پہنچے.
آپ خود سوچیں کہ جب *اجتماعی طور پر تراویح, جمعہ, عید, پنج وقتہ نماز, اور افطار* کی بھی آپ کو اجازت نہیں تو بازاروں میں جمع ہونے اور بھیڑ لگانے کی کیا ضرورت ہے ؟
جس طرح اب تک آپ نے لاک ڈاؤن کفایت کے ساتھ اپنوں اور دوسروں کا خیال رکھتے ہوئے گزارا ہے اسی طرح اپنی حیثیت کے مطابق آگے بھی جاری رکھیں. 
عید کی خریداری کی بجائے اپنا مال محفوظ رکھیں. فُقہاے کرام نے مسئلہ بیان فرمایا ہے کہ اگر عید میں نئے کپڑے نہ ہوں تو پرانے دھلے ہوئے صاف کپڑے پہن لیں. مال داروں کے لیے بھی اس مسئلے پر عمل کا یہ اچھا موقع ہے. ویسے بھی اگر لاک ڈاؤن جاری رہا تو عید میں اکٹھا ہونے کی اجازت نہیں ہوگی.
تاکید کے ساتھ یہ گزارش ہے کہ فضول خرچی ہرگز نہ کریں. اگر آپ کے پاس پیسے زیادہ ہیں تب بھی بہت احتیاط کریں, مناسب مقدار میں اپنے اہل و عیال اور اپنے ضرورت مند بھائیوں کے کھانا پانی اور دوسری اہم ضروریات پر خرچ کریں. جو پیسے بچیں انھیں آگے آنے والے حالات کے لیے محفوظ رکھیں.
تمام لوگ, خصوصا مال دار لوگ, موجودہ حالات میں بلکہ ہمیشہ قرآنِ کریم کی یہ ہدایات پیشِ نظر رکھیں :
وَءَاتِ ذَا ٱلۡقُرۡبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلۡمِسۡكِینَ وَٱبۡنَ ٱلسَّبِیلِ وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیرًا¤
إِنَّ ٱلۡمُبَذِّرِینَ كَانُوۤا۟ إِخۡوَ ٰ⁠نَ ٱلشَّیَـٰطِینِۖ وَكَانَ ٱلشَّیۡطَـٰنُ لِرَبِّهِۦ كَفُورࣰا¤
وَإِمَّا تُعۡرِضَنَّ عَنۡهُمُ ٱبۡتِغَاۤءَ رَحۡمَةࣲ مِّن رَّبِّكَ تَرۡجُوهَا فَقُل لَّهُمۡ قَوۡلࣰا مَّیۡسُورࣰا¤
وَلَا تَجۡعَلۡ یَدَكَ مَغۡلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ ٱلۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُومࣰا مَّحۡسُورًا¤ (سورة الإسراء، الآيات 26-27-28-29)
ترجمہ : اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو (بھی دو) اور فضول خرچی نہ کرو¤
بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے¤
اور اگر تم اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کی تمھیں امید ہے ان سے ({یعنی رشتہ داروں, مسکینوں, اور مسافروں سے}) منہ پھیرو تو ان سے آسان بات کہو¤ ({یعنی ان کی خوش دلی کے لیے اُن سے وعدہ کرلو یا ان کے لیے دعا کرو.})
*اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ پورا کھول دو کہ پھر ملامت میں ، حسرت میں بیٹھے رہ جاؤ¤*
اس آخری آیت میں ایک تمثیل کے ذریعے خرچ میں اعتدال اور میانہ رَوی کی ہدایت دی گئی ہے کہ نہ تو اس طرح ہاتھ روک لو کہ بالکل خرچ ہی نہ کرو اور ایسا لگے کہ گویا ہاتھ گلے سے باندھ دیا گیا ہے, دینے کے لیے ہِل ہی نہیں سکتا. اور نہ ہی اس طرح ہاتھ کھول کر خرچ کر ڈالو کہ اپنی ضروریات کے لیے بھی کچھ باقی نہ بچے. پھر ملامت اور حسرت میں بیٹھے رہ جاؤ.
پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے :
إِنَّ رَبَّكَ یَبۡسُطُ ٱلرِّزۡقَ لِمَن یَشَاۤءُ وَیَقۡدِرُۚ إِنَّهُۥ كَانَ بِعِبَادِهِۦ خَبِیرَۢا بَصِیرࣰا¤
[سورۃ الإسراء، الآية : 30]
بےشک تمہارا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کھول دیتا ہے اور تنگ کر دیتا ہے. بےشک وہ اپنے بندوں کی خوب خبر رکھنے والا، دیکھنے والا ہے.

#نثارمصباحی
رکن-روشن مستقبل, دہلی
5رمضان1441ھ/29اپریل2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے