رمضان و عید مکمل سادگی, صبر اور شکر کے ساتھ گزاریں

🍃🌹 رمضان و عید مکمل سادگی, صبر اور شکر کے ساتھ گزاریں🌹🍃
🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂
میرے مسلمان بھائیوں!
آپ سے پُرخلوص التجا ہے کہ رمضان و عید مکمل سادگی, صبر اور شکر کے ساتھ گزاریں. اس وقت دشمنانِ دین ہمیں بدنام کرنے اور ہماری معیشت کمزور کرنے کے لیے کمربستہ ہیں.
  معمول کے مطابق بھارتی مسلمان رمضان المبارک و عید کے موقع پر حسبِ استطاعت صوم و صلوٰۃ کی پابندیوں کے ساتھ عید الفطر کے لیے شاندار تیاریاں کرتے ہیں, صدقات و خیرات کے ساتھ گھروں کی آرائش و زیبائش, پُرتکلف ضیافتوں اور نئے نئے کپڑے بنوانے پر ایک خطیر رقم خرچ کرتے ہیں ,اس طرح پچیس کروڑ بھارتی مسلمان تقریباً کھربوں روپے خرچ کردیتے ہیں.
    لیکن شاید اس بار ہم اس طرح پُرتکلف رمضان گزارنے یا عید منانے کے مجاز نہیں ہیں اور اسی لیے شاید رضا اکیڈمی سمیت مختلف تنظیموں اور اداروں کی طرف سے اپیل کی جارہی ہے کہ رمضان و عید سادگی کے ساتھ منائیں. 
    اب ذرا غور کریں کہ لاکڈاؤن میں اب تک خرید و فروخت پر بالکلیہ پابندی تھی اچانک کچھ ناقابلِ عمل شرطوں کے ساتھ چھوٹ دے دی گئی ہے تاکہ شرطوں کی پابندی نہ کرکے آپ خرید و فروخت کے لیے باہر نکلو, نفع کوئی دوسرا اٹھائے اور بھیڑ جمع کرکے کورونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار آپ کو ٹھہرا دیا جائے. صحیح یہ ہے کہ ساری عوام سے خریداری کے دوران جب سوشل ڈسٹنسنگ کی پابندی نہیں ہوسکتی تو بدنامی یقینی ہے لہذا ہم بالکلیہ بازاروں سے خود کو دور کرلیں.
      دوسری بات, NRCاور CAA کا سیاہ قانون جس کے لیے ابھی ہم جد و جہد کے دور سے گزر رہے ہیں, اس دوران ہم نئے نئے لباس و عید کی تکلفات میں کیسے مشغول ہو سکتے ہیں؟ ممکن ہے کہ مظلوموں کو ہماری مدد کی ضرورت ہو.اگر ہم تکلفات میں پڑ گئے تو ملک میں آباد شاہین باغ جیسی تحریکات کو سخت ٹھینس پہونچ سکتی ہے.
    تیسری بات جس کا اگر ذرا بھی پاس ہوگا تو آپ عید کی خریداری کے لیے بازاروں کا رخ نہیں کریں گے. ابھی چند ماہ پہلے 9 نومبر کو بابری مسجد کی جگہ بت خانے کی تعمیر کا تکلیف دہ فیصلہ آیا جس نے ہمارے دلوں کو چھلنی کردیا ہے ایسی کربناک حالات میں ہمارا ضمیر کیسے گورا کرے گا کہ ہم بازاروں میں اپنا پیسہ لٹاتے پھریں. 
    میرے عزیزوں! ہم میں سے اکثر لوگ مفلسی کے دور سے گزر رہے ہیں, اس لاکڈاؤن میں روزمرہ کی ان کی کمائی بند ہونے کی وجہ سے ان کے پاس نِت نئے تکلفات اور اور عیش و آرام کی گنجائش تو دور کی بات ہے بلکہ ان کے یہاں تو دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے آتی ہے. ہمیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے اور سب سے بڑا مسئلہ ان تعلیمی و رفاہی اداروں کا ہے جس کا پورا انتظام عوامی چندوں پر موقوف ہوتا ہے, اس بار وہ بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں. ہمیں انہیں بھی جاری رکھنا ہے تاکہ ملت کے یہ کارخانہ علم و دانش جاری و ساری رہیں. اگر اس بار ہم نے اپنے آپ پر غیر ضروری اخراجات پر قابو پالیا تو یقیناً پوری قوم کا مجموعی طور پر کھربوں روپئے کا بچت ہوگا اور ہم مفلسی کے بجائے مستقبل میں کشادگی سے ہمکنار ہوں گے. 
  لہذا میری پُرخلوص گزارش ہے کہ اس بار آپ رمضان و عید مکمل سادگی, صبر و شکر کے ساتھ منائیں اور اپنے پیسے ضروری کاموں مثلاً بچوں کی تعلیم, تعلیمی و رفاہی اداروں کے فروغ, غریبوں کی امداد, مظلوموں کی دادرسی اور اپنی تجارت و صنعت کی بازآباد کاری پر خرچ کریں. اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور اسی سے ان شاء اللہ ہم موجودہ سوشل ڈسٹنسنگ اور لاکڈاؤن کے مصائب و اثرات اور اس کے ناجائز الزامات سے نجات پاسکیں گے. 
از🖊️ : *سراج الدین احمد خان نظامی* 
پرنسپل: *دارالعلوم اہل سنت رضویہ* دساواں سنت کبیر نگر و سربراہ: *اعلی دارالعلوم اہل سنت انوار الرضا* گورا چوکی گونڈہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے