مدرسہ کی میٹ(چٹائی) اسکول کے فنکشن میں استعمال کرنا کیسا؟

*🖊️مدرسہ کی میٹ(چٹائی) اسکول کے فنکشن میں استعمال کرنا کیسا؟🖊️*

⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕⭕
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ زید اسکول اور مدرسہ دونوں چلاتا ہو 
ایک جا نماز تھا (میٹ) جو پہلے مدرسہ میں تھا جس میں مدرسے کے بچے نماز پڑھا کرتے تھے ۔ بعد میں اس کو اسکول لیجایا گیا ۔اب اسکول کے کسی فنکشن پہ ناچ گانے کا پروگرام اسی جانماز ( میٹ ) پہ ہوتا ہے اس انسان کے لیے کیا حکم ہے جو ایسا کام کرواتا ہو۔۔۔۔۔
        لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
           العارض
 شمس تبریز
  فرنداہا ؛ پتھردیوا ؛ دیوریا (یو پی)

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

➖➖➖➖➖ *الجواب* ➖➖➖➖
وعليكم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہ -
مدرسہ کی میٹ (چٹائی) اسکول کے فنکشن میں استعمال کرنا ناجائز و حرام ہے۔ کہ شرط واقف مثل نص شارع واجب الاتباع ہے۔
 ۔درمختار مع شامی میں ہے۔
 *شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل به*۔
((📕درمختار علی ردالمحتار ج ٣ ص ٤٥٦))
 واقف کی شرط پر عمل شارع کی نص پر عمل کی طرح ضروری ہے۔(ت) 
اور صاحب فتح القدیر قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں! *الواجب ابقاء الوقف علی ماکان علیه*۔
وقف کو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھنا واجب ہے ۔(ت) 
((📕فتح القدیر ج ٥ ص ٤٤٠))
حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ!
*مدرسہ کے جنریٹر سے مسجد میں روشنی پہنچانا اور اس سے اذان دینا کیسا؟*-
اس کے جواب میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ!
*اگر وہ جنریٹر مدرسہ کے لئے وقف ہے تو اس کی روشنی مسجد میں پہنچانا جاںٔز نہیں اور اس سے اذان دینا بھی جاںٔز نہیں کہ یہ وقف میں بیجا تصرف ہے جو حرام ہے۔*
((📕فتاویٰ فقیہ ملت ج ٢ ص ١٦٧))
زید کا مذکورہ بالا فعل حرام قطعی ہے۔
امام اہل سنت حضور سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں!
 *"یہ فعل زید کا حرام قطعی ہے، ایک وقف جس غرض کے لئے وقف کیا گیا ہے اسی پر رکھا جائے اس میں تو تغیر نہ ہومگر ہیئت بدل دی جائے مثلا دکان کو رباط کردیں یا رباط کو دکان،یہ حرام ہے۔عالمگیری میں ہے:لاتجوز تغییر الوقف عن ھیئته: نہ کہ سرے سے موقوف علیہ بدل دیا جائے، متعلق مسجد کو مدرسہ میں شامل کرلیا جائے یہ حرام ہے اور سخت حرام ہے۔*
((📕فتاوٰی رضویہ ج ٦ ص ٣٨١))
*لمحۂ فکریہ*- جب تغییر وقف کے سبب جاںٔز اور کار خیر کے لئے مدرسہ کے سامان سے مسجد میں استفادہ ناجائز و حرام ہے تو پھر ایک حرام فعل کے لئے کس قدر حرام ہو گا آپ سوچ سکتے ہیں۔  
صورت مسؤلہ میں زید کا یہ فعل سراسر ظلم و عدوان اور ناجائز و حرام ہے ۔ مدرسے کی چٹائی خصوصاً ایسے ناپاک کام میں صرف کرنا جو شرعاً حرام ہے صریح ظلم و غصب و بے حرمتی مدرسہ ہے ۔ زید پر توبہ واستغفار لازم ہے ۔
 واللہ تعالٰی اعلم۔

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

*کتبہ ۔ عبد الشکور مرکزی رکن رضوی دارالافتاء۔*
*تصحیح ۔ مفتی رضوان احمد مصباحی رامگڑھ۔*
*تصدیق ۔ مفتی ہدایت اللہ ضیاںٔی صاحب۔*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے