-------------------------------------------
🕯رئیس الفضلاء حضرت علامہ مولانا عبدالکریم درس رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
*اسم گرامی:* حضرت علامہ مولانا عبد الکریم درس علیہ الرحمہ۔
*لقب:* رئیس الفضلاء۔
*تخلص:* درس۔
*سلسلہ نسب اس طرح ہے:* حضرت علامہ عبدالکریم درس بن شیخ التفسیر علامہ عبداللہ درس بن مولانا خیر محمددرس بن مولانا عبدالرحیم درس۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔
*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 1276ھ،مطابق 1860ء کو کراچی میں ہوئی۔
*تحصیل علم:* ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم شیخ التفسیر سے حاصل کی(جنہوں نے 113 برس کی عمر پائی اور اخیرعمر میں بزبان فارسی قرآن مجید کی مکمل تفسیر رقم فرمائی۔ جس کا قلمی نسخہ مدرسہ درسیہ صدر کراچی کی لائبریری میں محفوظ ہے)۔ اپنے والد صاحب سے تمام مروجہ علوم و فنون میں فراغت حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کےلئےملک سے باہر سفر کیا۔ پہلے ایران اور پھر جامعۃ الازہر قاہرہ (مصر) تشریف لئے گئے جہاں انہوں نے مصری یمنی اور عراقی علماء سے استفادہ کیا۔ آپ نے سند حدیث حضرت شیخ حسین بن محسن الخزرجی السعدی الانصاری الیمانی سے حاصل کی ۔ آپ کی یہ سند اجازت حدیث کتب خانہ درسیہ میں محفوظ ہے۔آپ کاشماراس وقت کےاکابر علماء سندھ میں ہوتاتھا۔آپ کی دینی وملی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
*بیعت و خلافت:* آپ نے سلسلہ عالیہ قادریہ میں نقیب الاشراف السید آغا عبدالسلام گیلانی قادری بن السید علی گیلانی علیہ الرحمۃ (۱۳۴۰ھ) سے بغداد شریف کی حاضری کے موقع پر بیعت فرمائی۔ انہوں نے آپ کو اپنی خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا۔ جس کا تذکرہ "شیخ الاسلام سیدنا عبدالقادر گیلانی و اولادہ " نامی کتاب کے صفحہ 435 مطبوعہ بغداد شریف میں بھی درج ہے۔
*(انوار علمائے اہل سنت سندھ:438)*
*سیرت و خصائص:* رئیس الفضلاء، مرجع العلماء، رئیس الاولیاء، سند الاصفیاء، صاحبِ اوصافِ کثیرہ، دافع وہابیہ والدیابنہ، محسن اہل سنت، محب اعلیٰ حضرت ،حضرت علامہ مولانا شیخ عبد الکریم درس قادری رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ علیہ الرحمہ ایک متحرک اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔خطہ سندھ میں اہل سنت و جماعت کی ترقی و فروغ میں آپ کا اہم کردار ہے۔
آپ اپنے وقت کے جید عالم دین اور کہنہ مشق مفتی تھے۔ آپ سے کثیر مخلوق ِ خدا نے علمی و روحانی استفادہ کیا۔ آپ کے فتوے اس وقت کے اہم جرائد و رسائل میں شائع ہوتے تھے۔ عالم اسلام کے جید علماء کرام سے گہرے روابط تھے۔ جن میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضاخان قادری، شیخ الاسلام خواجہ محمد حسن فاروقی، حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان، عالمی مبلغ اسلام حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی اور ان کے برادر اکبر مولانا نذیر احمد خجندی، مولانا سید دیدار علی شاہ، مولانا بشیر احمد کوٹلوی، مولانا ابوالبرکات، مولانا ابوالحسنات، مولانا ہدایت رسول قادری، پیر سید جماعت علی شاہ، وغیرہ۔
علیہم الرحمۃ والرضوان۔
1911ء میں علم غیب مصطفی اور حیات النبی ﷺ کے مسائل پر سندھ کے علماء میں بحث و مناظرے کا آغاز ہوا تو ایک جانب مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ (لیاری کراچی ) اور مدرسہ دارالرشاد گوٹھ پیر جھنڈا (ضلع حیدرآباد ) کے دیوبندی وہابی مولوی تھے۔ جب کہ دوسری جانب اکثر اکا بر علماء و مشائخ اہلسنت تھے۔ ان دنوں مخدوم حسن اللہ صدیقی نے نبی کریم ﷺکے علم غیب شریف پر دلائل و برہان پر مشتمل عالیشان کتاب "نور العینین فی اثبات علم الغیب لسید الثقلین" تحریر فرمائی۔
اسد ملت علامہ مولاناسید اسد اللہ شاہ نے کتا ب"ہدایہ اسدیہ" ( ۳ حصے ) لکھی اور افتخار علمائے احناف علامہ عبدالکریم درس نے عظیم الشان تصنیف ایضاح الحق ( سندھی لکھ کر شائع کی ۔
ڈاکٹر مجید اللہ قادری رقمطراز ہیں :
علامہ عبدالکریم درس کے علماء دیوبند کے ساتھ شہر کراچی میں مسئلہ علم غیب عطائی پر کئی منا ظر ے اور مباحثے ہوئے ۔ مولانا عبدالکریم درس کا حضور بنی کریم ﷺکے علم غیب عطائی پر وہی عقیدہ تھا جو چودہ سو سال سے اہلسنت و جماعت کا چلا آرہا ہے چنانچہ انہوں نے اس موقف کی تائید فر مائی اور دیوبند ی حضرات سے مناظر ے بھی کئے اس سلسلے میں آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی سے رجوع بھی کیا اور ان سے مدد بھی طلب کی چنانچہ اعلیٰ حضرت نے اپنے تصنیف شدہ کئی رسائل کے ساتھ ساتھ علامہ عبدالکریم درس کی مدد کے لئے ان کے خط کے جواب میں اپنے شاگرد و خلیفہ مناظر اسلام حضرت علامہ ہدایت رسول قادری لکھنوی کو 1911ء میں چند علماء کے ساتھ کراچی بھیجا۔ آپ نے کراچی پہنچ کر مولانا عبدالکریم درس کے ساتھ مل کر دیوبندی حضرات کو علم غیب کے مناظر ے میں شکست سے دوچار کیا۔
*(انوار علمائے اہلسنت سندھ:440/ امام احمد رضا اور علماء سندھ :17)*
خلیفہ اعلیٰ حضرت ، مجاہد ملت حضرت علامہ احمد مختار صدیقی نے اپنے برادر گرامی قدر مولانا نذیر احمد خجندی کے نام خط لکھا ہے۔ اس سے آپ کی عظمت و مقبولیت کا پتہ لگتا ہے ۔ رقمطراز ہیں :
برادرم السلام علیکم !
تم سے رخصت ہو کر نہایت آرام کے ساتھ بحری سفر طے ہوا ، سمندر بالکل ساکن ہے تلاطم مطلق نہیں ۔ آج صبح آٹھ بجے کے قریب کراچی پہنچے ، "رسالت کمیٹی " کراچی کے ارکان و جملہ اکابر اہل سنت نے مع اپنے مرید ین و معتقدین کی بڑی جماعت کے ساتھ استقبال کیا اور نہایت شاندار جلوس نکالا متعدد موٹریں اور گھوڑا گاڑیاں جلوس میں تھیں اور ہزاروں نفوس پا پیادہ ، سب سے پہلی گاڑی پر دو بڑے بڑے ہلالی علم ( جھنڈے ) پہلی اور دوسری گاڑی میں قصیدہ خوانوں کی جماعت ترنم ریزی کرتی جاتی تھی دس دس پانچ پانچ قدم پر مسلمانان اہل سنت اپنے اپنے مکانوں اور دکانوں کے سامنے جلوس کو روک کر اور ارکان وفد اور اکابر کو مکلف بڑے بڑے ہار پہناتے اور گلاب پاشی کرتے ۔ کراچی میں حضرت مولانا عبدالکریم درس کا وجود مسعود اہلسنت میں ایک خاص جوش پایا جاتا ہے مگر وہابیہ کی جماعت "خلافت کمیٹی " کے روپیہ کی مدد سے فتنہ کا جال پھیلا رہی ہے ۔ مولیٰ تعالیٰ حق کو غالب فرمائے ۔(ایضاً:441)
*امام احمد رضا خان قادری اور علامہ عبدالکریم درس:*
یہ دونوں بزرگ ہم عصر، ہم مسلک و مشرب اور خیر خواہ تھے۔ دونوں کے آپس میں گہرے مراسم اور قلبی تعلقات تھے۔
مولانا اصغر درس بتاتے ہیں : دادا جان کو اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے بڑی محبت تھی اور اکثر و بیشتر ان کی زبان پر اعلیٰ حضرت کا ذکر خیر رہتا۔ آپ عربی فارسی سندھی اور اردو کے بڑے اچھے شاعر بھی تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنی ایک نظم میں اعلیٰ حضر ت سے عقیدت و محبت کا اظہار اس طرح فرمایا :
شعروں میں میرے اکثر انداز رضا کا ہے
سچ کہتے ہیں یہ جھوٹے یہ "درس" رضائی ہے
جب مولانا امام احمد رضا خان 1905ء میں دوسری بار حج سے واپس ہوئے تو کراچی میں مولانا عبدالکریم درس کے ہاں قیام فرمایا ،اور یہیں سے واپس ممبئی تشریف گئے۔ آپ کے خاندانی کتب خانہ میں اب بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے خطوط موجود ہیں۔ اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد آپ کےصاحبزادے حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامدرضاخاں علیہ الرحمہ کے آپ کے ساتھ گہرے تعلقات رہے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے تیسرے عرس کے موقع پر آپ خصوصی طور پر مدعو تھے۔
آپ نے ملت اسلامیہ کےلئے عظیم خدمات انجام دیں، جنگ طرابلس، بلقان، اور ترکی کی جنگ میں خطیر رقم پہنچائی۔تحریکِ خلافت میں انگریزوں کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا، اور اہم خدمات انجام دیں۔
*تاریخِ وصال:* آپ کا وصال 19/شعبان 1344ھ،مطابق 4/مارچ 1924ء، بروز جمعرات کراچی میں ہوا۔ آپ کا مزار شریف دھوبی گھاٹ لیاری کراچی کے قبرستان میں ہے۔
ماخذ و مراجع: انوار علمائے اہل سنت سندھ۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں