کہ کوئی نمازی نماز پڑھ رہا اور جب وہ سجدہ کر رہا تھا تو سجدہ کرتے وقت ان کے دونوں ہاتھ کے کہنیوں یا اس سے تھوڑا سا کم زمین میں لگ گیا تو کیا ایسی صورت میں نماز میں کوئی خرابی آئے گی
جواب عنیایت فرمائیں
المسستفتی.. محمد ابرار احمد ثقافی پورنیہ بہار،
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: یہ خلاف سنت ہے، نماز ہوجائے گی کہ سجدہ کرتے ہوئے کہنیوں کو زمین پر نہ رکھنا سنت ہے،جیسا کہ بخاری میں ہے:باب لاَ يَفْتَرِشُ ذِرَاعَيْهِ فِي السُّجُودِ،
وَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلاَ قَابِضِهِمَا....
اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ، وَلاَ يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ، باب اس بارے میں کہ نمازی سجدہ میں اپنے دونوں بازوں کو زمین پر نہ بچھائے،اور ابو حميد نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور دونوں ہاتھ زمین پر رکھے، بازو نہیں بچھائے نہ ان کو پہلو سے ملائے،. اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،سجدے میں اعتدال کرو تم میں کوئی کتے کی طرح اپنی کلائیاں نہ بچھائے،(بخاری،کتاب الاذان،) کتے کی طرح بچھانے کا معنی یہ ہے کہ ہتھیلیوں کے ساتھ کہنیوں کو زمین پر رکھے(نعمةالباري في شرح صحیح البخاري ج٢ ص٧٤٨)، اور بہار شریعت میں ہے:مرد کے لیے سجدہ میں سنت یہ ہے کہ بازو کروٹوں سے جدا ہو، اور پیٹ رانوں سے،اور کلائیاں زمین پر نہ بچھائے، مگر جب صف میں ہو تو بازو کروٹوں سے جدا نہ ہوں گے، (ہدایہ، عالمگیری، درمختار)اور حدیث میں ہے جس کو بخاری و مسلم نے انس رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم : ''سجدہ میں اعتدال کرے اور کتے کی طرح کلائیاں نہ بچھائے۔ اور صحیح مسلم میں براء بن عازب رضی اﷲ تعالی عنہ سے مروی، کہ حضور (صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم) فرماتے ہیں: ''جب تو سجدہ کرے، تو ہتھیلی کو زمین پر رکھ دے اور کہنیاں اٹھالے۔ابو داود نے ام المومنین میمونہ رضی اﷲ تعالی عنہا سے روایت کی کہ جب حضور (صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم) سجدہ کرتے تو دونوں ہاتھ کروٹوں سے دور رکھتے، یہاں تک کہ ہاتھوں کے نیچے سے اگر بکری کا بچہ گزرنا چاہتا، تو گزر جاتا۔اور مسلم کی روایت بھی اسی کے مثل ہے، دوسری روایت بخاری و مسلم کی عبداﷲ بن مالک ابن بحلينہ سے یوں ہے کہ ہاتھوں کو کشادہ رکھتے، یہاں تک کہ بغل مبارک کی سپيدی ظاہر ہوتی،(بہار شریعت جلد ١ حصہ ٣ صفحہ ٥٢٩، مکتبۃ المدینہ)،
تو جب ثابت ہو گیا کہ سجدہ کرتے وقت کہنیوں کو زمین پر نہ بچھانا سنت ہے، پس بچھانا خلاف سنت ہوا اور وہ إسائت ہے کہ مکروہ تحریمی اور مکروہ تنزیہی کے درمیان گویا برزخ ہے یعنی تحریمی سے کچھ خفیف اور تنزیہی سے کچھ زیادہ فحش ،لہذا یہ سنت مؤکدہ کے بالمقابل ہے،عادتاً اس کے فاعل پر عذاب اور نادراً اس کے فاعل پر عتاب ہے،(فتاوی یورپ ص ١٧٠)،
اور اس کا ترک کرنے والا یعنی سجدہ میں کلائیوں کو بچھانے والا مرتکبِ إسائت ہے نہی تنزیہی کی وجہ سے اور اس کی نماز صحیح و درست ہے،كما قال الإمام العلامة بدرالدين العيني الحنفي رحمه الله تعالى: فلو تركه كان مسيئا مرتكبأ لنهي التنزيه و صلاته صحيحة( عمدةالقاري شرح صحیح البخاري،كتاب ألأذان ،الجزءالسادس،ص ١٣٩)،.
هذا ما ظهرلي والعلم علي أعناق العلماء
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
عبده المذنب محمد شبیر عالم الثقافي غفرله
١٧/شعبان المعظم ١٤٤١ھ مطابق ١٢ اپریل ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں