فجر، مغرب اور عشاء میں بلند آواز سے قرائت کرتے ہیں جبکہ ظہر اور عصر میں آہستہ، ایسا کیوں؟
جواب عنایت فرمائیں، مستفتی نور عالم، قطر
الجواب بعون الملك الوهاب: اسلام کے شروعاتی دور میں کفار کا غلبہ تھا وہ قرآن عظیم کو سن کر اللہ تعالیٰ اور قرآن مجید، جبرئیل علیہ السلام اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گالیاں دیتے تھے چونکہ ظہر و عصر میں وہ آوارہ گھومتے تھے اس لیے ان دونمازوں میں آہستہ قرآت کا حکم ہوا اور مغرب میں کھانے پینے میں مشغول رہتے اور عشاء تک سو جاتے اور فجر میں نیند
سے بیدار نہیں ہوتے اس لئیے ان نمازوں میں بلند آواز سے قرأت کا حکم ہوا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولاتجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذالك سبيلا، (سورہ اسرأ، أیت نمبر ١١٠) اور اپنی نماز میں نہ آواز زیادہ بلند کرو اور نہ اسے بالکل آہستہ کردو اور دونوں کے درمیان کا راستہ تلاش کرو، اسی آیت کے تحت تفسیر جلالین کے حاشیہ میں ہے کہ عن ابن عباس كان النبى صلى الله عليه وسلم اذا رفع صوته بالقرآن فسبه المشركون ومن انزله ومن جاء به فنزل الله ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها عن اصحابك، وكذا فى حاثيته قال الطبرى ولا يعبد ان يكون المراد لا تجهر بصلاتك أى بقرائتك فيها نهارا ولا تخافت بها ليلا.اه یعنی دن میں جہری قرأت کرکے عبادت نہ کرو اور نہ رات میں سری قرأت کرکے بلکہ دن میں سری اور رات میں جہری قرأت کریں "(صفحہ ٢٤٠)اور فتاوی علیمیہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام و تابعین عظام سے اسی طرح منقول ہے. علامہ ابن ہمام قدسہ سرہ فرماتے ہیں ثم المصلى ان كان إماما يجهر فى الفجر وفى الركعتين الأولين من المغرب والعشاء ويخفى فى الأخرين هذا هو الماثور المعوارث المنقول عن النبى عليه الصلاة والسلام والصحابة والتابعين"(ج١، صفحہ ١٣٥) والله تعالى أعلم بالصواب
عبده المذنب محمد توقير عالم الثقافى غفرله
٢١شعبان المعظم ١٤٤١ھ بمطابق ١٦ اپریل ٢٠٢٠
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں