استقبالِ ماہ رمضان المبارک اور ہمارے اعمال

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
          *السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ*                   
              🌹 *بسم اللہ الرحمن الرحیم*🌹
       *الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ* ﷺ

*استقبالِ ماہ رمضان المبارک اور ہمارے اعمال*

ماہ رمضان کی آمدکے ساتھ ہی عموما استقبال رمضان کے کلمات سن کر جو ذہن میں ایک نقشہ تیار ہوتا ہے وہ کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ہوتا ہے۔ خواتین کی بات کریں تو نت نئی ریسیپیز(recipes) اور مختلف پکوان بنانے کے حوالے سے تیاریاں زور وشور پر ہوتی ہیں اور مردوں بچوں کی بات کی جائے تو ماہ مبارک کا چاند دیکھکر پٹاکھے پھوڑنا گھروں سے باہر نکل کرہلڑبازی کرنا ۔ کیامعاشرے میں رائج استقبال رمضان کا یہ طریقہ درست ہے؟ کیا ماہ رمضان کا استقبال ایسا ہی ہونا چاہیئے؟ کیا یہ رحمت کا مہینہ اسی لیے آتا ہے کہ پٹاکھے پھوڑے جائیں اور اسے بازاروں میں شاپنگ کرتے اور طرح طرح کے کھانے پکا کھاکر گزارا جائے۔نہیں میرے اسلام کے مقدس شہزادوں/شہزادیوں یہ ماہ مبارک سال میں فقط ایک بار آتا ہے اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس ماہ کو پائیں اور اللہ تبارک و تعالی کو راضی کرلیں ۔نبی اکرم ﷺ پورے سال اس ماہ کا انتظار فرماتے۔ آپﷺ رجب کے مہینے سے اپنی دعاؤں میں اس کا اضافہ فرماتے کہ، ’’اے اللہ! ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان کے مہینے تک ہمیں پہنچا۔ (مسند احمد:2257) آپﷺ یہ دعا بھی فرماتے تھے، ’’اے اللہ! مجھے رمضان کے لیے اور رمضان کو میرے لیے صحیح سالم رکھ اور رمضان کو میرے لیے سلامتی کے ساتھ قبولیت کا ذریعہ بنا۔ (الدعاء الطبرانی، حدیث نمبر:839) ماہ صیام کا استقبال نہ صرف نبی اکرم ﷺ خود فرمایا کرتے بلکہ اپنے اہل و عیال اور صحابہ کرام ؓ کو بھی تلقین فرماتے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اللہ رب العزت کا وہ عظیم تحفہ ہےجو اس نے امت محمدیہ کو عطا کرکے ان پر احسان عظیم کیا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہر نیکی اور عبادت کا ثواب بڑھا کر ستر گنا کردیا جاتا ہے۔ماہ رمضان جس کی ہرساعت میں اللہ کریم نہ جانے کتنے گناہ گاروں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتا ہے۔ روزہ اللہ کی پسندیدہ ترین باطنی عبادتوں میں سے ایک ہے کیوں کہ انسان صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے ہی حلال اور طیب(پاکیزہ) چیزوں سے خود کو روکے رکھتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزاء بھی میں ہی دوں گالیکن ہم اس سنہرے موقع کو بھی غفلت میں گزار دیتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں تو بھی برائے نام، وقت گزارنے کے لیے فلموں ڈراموں اور گانے باجوں سے دل بہلاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے روزے کی حالت میں فقط کھانے پینے سے خود کو روکنا بس یہی مقصد ہے ۔ روزے کا مقصد تقوی کا حصول اور تزکیہ نفس ہے لیکن جب یہ روزہ لہو و لعب(کھیل کود) میں گزرے گا تو اس کا مقصد کیوں کر حاصل ہوگا۔ یہ تیس ایا م کے روزے انسان کو پورے سال صبراور تحمل سے رہنے کا درس دیتے ہیں۔ لغو اور بری عادات سے چھٹکار ا دلانے میں مدد کرتے ہیں۔ روزہ اس کے تمام آداب کے ساتھ رکھا جائے تو اس کا اجر اللہ تعالی ہمارے گمان سے بھی کہیں زیادہ عطا فرمائے گا۔زکوۃ یوں تو سارا سال ادا کی جاسکتی ہے لیکن چوں کہ رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب بڑھادیا جاتا ہے تو عموما لوگ اس ماہ میں ہی زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ کوشش کریں کہ اپنی زکوۃ ماہ رمضان کے پہلے عشرے میں ہی ادا کردیں تاکہ مستحقین اپنے رمضان اور عید کا اہتمام مناسب انداز سے کرسکیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اگلے سال جب ماہ رمضان آئے گا تو ہم اس کی رحمتیں اوربرکتیں اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیے موجود ہوں گے بھی کہ نہیں۔ اس لیے ہمیں جو موقع میسر ہے اسے غفلت کی نذر نہ کرتے ہوئے اس ماہ رمضان میں عبادات کا اہتمام کرنا چاہیئے، غریب اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرنی چاہیئے۔ حسب توفیق صدقات کرکے رضائے الہی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔اس ماہ مبارک میں رب تعالی کے حضور خصوصی دعا کیجیے کہ وہ ہمیں اس عالمی وبا سے نجات عطا فرمائے۔ یہ وبا جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے اپنوں کو نگل رہی ہے اور عالم تو یہ ہے کہ ہم کوئی دلاسہ کوئی تسلی کے دو حروف ان کو نہیں دے سکتے۔ یہ وبا ہے جو نہ امیر غریب دیکھ رہی ہے نہ بچہ بوڑھا۔ ہمیں اس کے شر و آفت سے فقط خدائے پروردگار کی رحمت ہی محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اس ماہ مبارک میں اپنے رب کو منالیجئے، گڑگڑا کر، ہاتھ اٹھا کر، سجدے میں گر کر، رو رو کر اس کی رضا طلب کرنی چاہیئے تاکہ وہ ہمارے اعمال کے سبب آنے والی اس آزمائش کو ہم سے دور فرمادے آمین بجاہ شفیع المذنبین 
                  *محمد سفیان رضوی امجدی*
استاذ...مدرسہ صابریہ مسجد گوؤنڈی ممبئی 43

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے