انسانی شیطان اور جناتی شیطان سے نجات کی صورت
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 یاد رہے کہ شیطان خواہ انسانوں میں سے ہوں یاجنوں میں سے ان کی کوئی بھی بات نہ مانی جائے کیونکہ اگر ان کی ایک بات مان لی تو یہ ملعون اسی پر اِکتفا نہ کریں گے بلکہ اور باتیں منوانے کی تاک میں بھی رہیں گے اور جتنا ان کی بات مانتے چلے جائیں گے اس کا سلسلہ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔
اسی طرح ان کے ساتھ جھگڑے اور بحث میں مصروف نہ ہوا جائے کیونکہ اس کے ذریعے بھی وہ اپنے ناپاک عَزائم میں کامیاب ہو جاتے ہیں لہٰذا ان سے نجات کی صورت یہ ہے کہ ان کی کوئی بات سنی ہی نہ جائے کیونکہ اگر ان کی بات سنیں گے تو ممکن ہے کہ کوئی بات دل پر اثر کر جائے اور سننے والا کفر و گمراہی کی دلدل میں پھنس کر رہ جائے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کا خلاصہ ہے کہ شیطان دو قسم کے ہیں:
*(1) شَیَاطِیْنُ الْجِنْ:* ان سے ابلیس لعین اور اس کی ملعون اولاد مراد ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ان کے شر اور تمام شیاطین کے شر سے پناہ دے۔
*(2) شَیَاطِیْنُ الْاِنْس:* اس سے کفار اور بدعتی لوگوں کے داعی اور مُنادی مراد ہیں۔
تمام گمراہ فرقے کی تبلیغ کرنے والے انسانی شیطان ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر لعنت فرمائے اور ان کو ہمیشہ بے سہارا رکھے اور ان پر ہمیں دائمی نصرت عطا فرمائے۔
اے اللہ !سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہماری یہ دعا قبول فرما۔
ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے
’’وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا‘‘(انعام:۱۱۲)
یوں ہی ہم نے ہر نبی کا دشمن کیا شیطان آدمیوں اور شیطان جنوں کو کہ آپس میں ایک دوسرے کے دل میں بناوٹ کی بات ڈالتے ہیں دھوکا دینے کیلئے۔
حدیث میں ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابوذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا:
’’ شیطان آدمیوں اور شیطان جنوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگ۔
حضرت ابوذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی:
کیا آدمیوں میں بھی شیطان ہیں ؟ ارشاد فرمایا: ہاں۔
*( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی ذر الغفاریرضی اللہ تعالٰی عنہ، ۸ / ۱۳۲، الحدیث: ۲۱۶۰۸)*
ائمۂ دین فرمایا کرتے کہ شیطان آدمی شیطان جن سے سخت تر ہوتا ہے۔
*( تفسیر طبری، الناس، تحت الآیۃ: ۴، ۱۲ / ۷۵۳)*
میں کہتا ہوں :اس آیت کریمہ میں
’’شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ‘‘ کو مقدم کرنا بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ شیطان آدمی شیطان جن سے سخت تر ہوتا ہے۔اس حدیث کریم نے کہ’’جب شیطان وسوسہ ڈالے اتنا کہہ کر الگ ہوجاؤ کہ تو جھوٹا ہے‘‘ دونوں قسم کے شیطانوں کا علاج فرما د یا، شیطان آدمی ہو خواہ جن اُس کا قابو اسی وقت چلتا ہے جب اس کی سنیں گے اور جب تنکا توڑ کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیں گے کہ’’ تو جھوٹا ہے‘‘ تو وہ خبیث اپنا سامنہ لے کر رہ جاتا ہے۔
*( فتاوی رضویہ، ۱ / ۷۸۰-۷۸۱)*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں