علماء کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ اگر کوئی بندہ نماز کے اندر آیت سجدہ تلاوت کرنے سے پہلے سجدۂ تلاوت کر دے تو اس نماز کا کیا حکم ہے ؟؟
اس کا سجدہ کرنا عمل کثیر ہے یا نہیں ؟؟
المستفتي: محمد مناظر حسین مركزي،
(وعلیکم السلام و رحمة الله و بركاته)
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: صورت مستفسرہ میں اگر *قصداً کیا تو نماز مکروہ تحریمی واجب الإعادہ ہوئی*،کہ نماز میں آیت سجدہ تلاوت کی تو اس کا سجدہ نماز ہی میں واجب ہے بیرون نماز نہیں، جیساکہ درمختار و ردالمحتار میں ہے:(ولو تلاها في الصلاة سجدها فيها لا خارجها)...:وكل سجدة وجبت في الصلاة،(رد المحتار على در المختار ج2 كتاب الصلاة،باب سجودالتلاوة،صفحہ 585،الرياض)،
اور سجدہ آیت سجدہ پڑھنے کے بعد واجب ہے پہلے نہیں، اور واجب کا اپنے محل میں ہونا واجب، ورنہ سجدہ سہو واجب،جیسا کہ عالمگیری میں ہے: أو کرر رکناً أو قدم الرکن أو أخرہ ففي هذه الفصول كلها يجب سجود السهو،وفي القدوري ومن ترك من صلاته فعلاً وضع فيه ذكر فعليه سجود السهو لأن الفعل إذا وضع فيه..(الفتاویٰ الهندية ج1 كتاب الصلاة باب سجود السهو صفحہ 141،بيروت)،
اور قصداً ترک واجب سے اعادہ واجب،جیساکہ ہندیہ میں ہے:و ظاهر كلام الجم الغفير أنه لا يجب السجود في العمد و إنما تجب الإعادة جبراً لنقصانه كذا في البحرالرائق،(الفتاویٰ الهندية ج1 كتاب الصلاة باب سجود السهو صفحہ 139،بيروت)،
نیز واجب کا چھوڑنا مکروہ تحریمی جیسا کہ ردالمحتار میں ہے: بأن تضمن ترك واجب أو ترك سنة،فالأول مكروه تحريما، والثاني تنزيها،(رد المحتار علی الدرالمختار ج2 كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة...مطلب في الكراهة التحريمة والتنزيهة،صفحہ404،الرياض)،
اور وہ نماز جو کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کی جائے اعادہ واجب،جیسا کہ درمختارمیں ہے: كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها،(رد المحتار على در المختار،كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،مطلب: كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها،صفحہ147،الرياض)،.
*اور اگر سہواً کیا تو سجدہ سہو واجب*، جیسا کہ: أو قدم الركن أو أخره ففي هذه الفصول كلها يجب سجود السهو، اوپر گزرا،
تو اس صورت میں سجدہ سہو سے نماز درست ہوگی،
ہاں آیت سجدہ تلاوت کرنے کے بعد اگر قصداً سجدہ نہ کیا تو گناہ گار ہوا توبہ کرے،جیسا کہ درمختارمیں ہے:وفي البدائع: و إذا لم يسجد أثم فتلزمه التوبة، نیز آیت سجدہ نماز کا نماز ہی میں ادا کرنا واجب بعد میں نہیں، اسی جگہ شامی میں ہے:و كل سجدة وجبت في الصلاة و لم تؤدي فيها سقطت: أي لم يبق السجود لها مشروعا لفوات محله١ھ،(رد المحتار علی الدرالمختار ج2 صفحہ 585)،
*اس کا سجدہ کرنا عمل کثیر نہیں ہے*، کہ نماز میں کوئی ایسا عمل کرنا جو نماز کی جنس میں سے ہو نماز کا ہی رکن ہو،تو اس میں عمل کثیر یا قلیل نہیں دیکھا جاتا،
جیسا کہ در المختار میں ہے: و يفسد ها كل عمل كثير،ليس من أعمالها و لا لإصلاحها، یعنی عمل کثیر سےنماز فاسد ہو جاتی ہے، اور اعمال نماز اور اصلاح نماز عمل کثیر میں سے نہیں ہے،
اسی جگہ شامی میں ہے: (ليس من أعمالها)احتراز عما لو زاد ركوعا أو سجودا، یعنی وہ عمل نماز کی جنس میں سے نہ ہو،پس ایک رکعت میں ایک سے زیادہ رکوع یا دو سے زیادہ سجدہ عمل کثیر نہ ہونگے،
(ولا لإصلاحها) خرج به الوضوء و المشي لسبق الحدث فإنهما لا يفسدانها، کہ وہ عمل نماز کی اصلاح کی غرض سے نہ کیا جائے، پس دوران نماز حدث لاحق ہونے کی صورت میں وضو کے لے آنا جانا کیا جاتا ہے وہ عمل کثیر نہ ہوگا کیونکہ وہ اصلاح کی غرض سے ہے،
(رد المحتار على در المختار ج2 كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة..صفحہ385، 386،الرياض)،
*هذا ما ظهرلي والعلم عند الله*
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
عبده المذنب محمد شبیر عالم الثقافي غفرله
١٨/رمضان المبارک ١٤٤١ھ مطابق ١٢ مئ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں