Header Ads

شیخ الاسلام حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللّٰه علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
شیخ الاسلام حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:* 
*اسم گرامی:* حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللّٰه علیہ۔
*کنیت:* ابو النور۔
*لقب:* شیخ الاسلام۔
*سلسلہ نسب:* آپ کا سلسلہ نسب گیارہویں پشت میں حضرت مولا علی شیر خدا رضی ﷲ عنہ تک پہنچتا ہے۔
*(سیرتِ خواجہ غریب نواز:42)*

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت اکثر مؤرخین کے نزدیک 536ھ، کو قصبہ ’’ہارون یا ہرون‘‘ خراسان میں ہوئی۔
*(اہل سنت کی آواز، خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ 2008ء/1429ھ، صفحہ:200)*

*ہارون یا ہروَن:* اس مقام کی وجہ سے حضرت خواجہ رحمۃ اللّٰه علیہ کو ’’ہارونی‘‘ کہا جاتا ہے۔ 
اس مقام کا اصل نام کیا ہے:
بعض ہروَن اور اکثر ہارون کہتے ہیں۔ خیر المجالس میں ہے: ’’صحیح تو ہَرونی ہے لیکن عوام و خواص کی قلم و زبان پر ’ہارونی‘ چڑھا ہوا ہے‘‘۔ بہت مشہور دعائیہ شعر ہے۔

؏:بحق خواجۂ عثمان ہاروں
مدد کن یا معین الدین چشتی
(ایضا:201)

*تحصیلِ علم:* آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے نیشاپور تشریف لے گئے۔ وہاں مشاہیر علماء و فضلاء کی سرپرستی میں علوم و فنون حاصل کیے۔ آپ کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ "آپ کا خاندان چوں کہ عمدہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ اور علم دوست تھا۔ والد ماجد بھی جید عالم تھے، اس لیے شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی علم کی طرف راغب ہو گئے اور والد ماجد کی بارگاہ میں رہ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی، قرآن شریف حفظ کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے اس زمانے کے علمی و فنی مرکز نیشاپور کا رخ کیا اور وقت کے مشاہیر علماء و فضلا سے اکتساب علم کر کے جملہ علوم مروجہ و متداولہ میں دسترس حاصل کی۔ جلد ہی آپ کا شمار وقت کے علماء و فضلاء میں ہونے لگا۔

*بیعت و خلافت:* ظاہری علوم کی تکمیل اس مرد باصفا کی آخری منزل نہ تھی۔ اس لئے علوم باطنیہ کی تحصیل کاعزم مصمم کیا اللہ جل شانہ نے آپ کے پرخلوص ارادے کی بدولت امام الاولیاء، قطب الاقطاب سرتاج سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ حضرت خواجہ محمد شریف زندنی رحمہ اللّٰه کی خانقاہ معلیٰ میں پہنچا دیا۔
سلسلہ عالیہ چشتیہ میں ان کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اور ان کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منازل طے کرنے لگے۔عبادت و ریاضت اور مجاہدۂ و مکاشفہ نے جب کندن بنا دیا تو نگاہ ِمرشد نے منصبِ خلافت کےلئے منتخب فرما لیا۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ کی خلافت سے سرفراز ہوئے۔ اسی طرح حضرت خواجہ مودود چشتی رحمۃ اللّٰه علیہ سے بھی فیض یاب ہوئے۔(ایضا:202)

*سیرت و خصائص:* قطب الاقطاب، ناصرالاسلام، عارف اسرار رحمانی، واصل ذاتِ باری، محبوب صاحب ِلامکانی، شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد عثمان ہارونی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
آپ علیہ الرحمہ کا شمار اکابرین ِ امت اور کبار اولیاءِ کرام و مشائخِ عظام میں ہوتا ہے۔ علوم ظاہریہ و علوم باطنیہ ،شریعت و طریقت، تصوف و معرفت میں مجمع البحرین تھے۔ تاریخِ مشائخِ چشت میں ہے: ’’در علم ِ شریعت و طریقت و حقیقت اعلم بود‘‘۔
*(بہارِ چشت:77)*

صاحب سبع سنابل حضرت میر سید عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللّٰه علیہ نے بیعت و خلافت کا تذکرہ یوں فرمایا ہے لکھتے ہیں:
حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی عمر کافی تھی، آپ نے سفر بھی بہت کیے، جب حضرت خواجہ شریف زندنی رحمہ اللّٰه کی خدمت میں پہنچے تو عرض کی: 
بندہ عثمان کی تمنا ہے کہ حضور والا کے مریدوں میں شمار کیا جائے۔ خواجہ شریف زندنی نے قبول کیا، خلافت کی کلاہ چار ترکی عنایت کی، قینچی (بالوں پر) چلائی اور فرمایا: مصطفیٰ ﷺنے کلاہ چار ترکی استعمال فرمائی ہے، تمام کائنات کو خدا کی محبت میں چھوڑ کر فقر و فاقہ اختیار فرمایا ہے، فقیروں اور غریبوں سے محبت رکھی ہے، لہذا جو شخص کلاہ چار ترکی سر پر رکھے، اسے چاہیے کہ مصطفیٰ ﷺ کی پیروی کرے اور ہر شخص کو اپنے سے برتر جانے۔ جو شخص تکبر اختیار کرے اور اپنی فوقیت چاہے وہ درویش نہیں، نفس پرست ہے۔ راہ نما نہیں راہزن ہے۔ مشائخ کے خرقے کے لائق نہیں وہ چور ہے۔اہل نعمت نہیں بے نصیب ہے۔ مشائخ اس سے بے زار ہیں۔درویشی کا لباس اس پر حرام ہے۔ اسے خرقہ پہنانا جائز نہیں اور نہ کلاہ چار ترکی سر پر رکھنا اور مرید کرنا۔ 
خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے شیخ کی نصیحت قبول کی اور گوشہ نشیں ہو کر ذکر لا الٰہ الا اللہ میں مشغول ہو گئے۔ تین برس کے بعد خواجہ شریف زندنی نے خلافت کی کملی پہنائی اور فرمایا: 
اے عثمان! تمھیں میں نے پیدا کرنے والے کی بارگاہ میں پیش کیا۔ تمھیں پسند کیا گیا ہے پھر خواجہ شریف زندنی رحمہ اللّٰه نے اسم اعظم جسے اپنے مرشد سے حاصل کیا تھا، خواجہ عثمان کو سکھادیا، جس سے علم معرفت کے اسرار اور شریعت و طریقت و حقیقت کے رموز آپ پر منکشف ہو گئے۔
*(سبع سنابل:434)*

*عبادت و ریاضت:* خواجہ عثمان ہارنی علیہ الرحمہ صاحب ِریاضت و مجاہدہ تھے۔ قرآن مجید کے حافظ تھے۔ روزانہ ایک قرآن شریف کی تلاوت کرتے۔سترسال کی مدت تک کسی وقت نفس کو پیٹ بھر کھانا پانی نہ دیا۔ رات کو نہ سوئے، تین چار روز کے بعد روزہ رکھتے، کبھی کبھی چار پانچ ہی لقمے پر اکتفا کر لیتے۔ 
حضرت میر عبد الواحد بلگرامی علیہ الرحمہ ان کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:
"خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے دس سال تک خود کو کھانا نہ دیا۔ آپ سات روز کے بعد ایک گھونٹ پانی پیتے، اور عرض کرتے: 
خدایا! ہمیں نفس کے ظلم سے بچا، نفس مجھ پر غالب آنا چاہتا ہے۔ مجھ سے پانی مانگتا ہے تو میں ایک گھونٹ منہ بھر دیتا ہوں۔ 
خواجہ عثمان ہارونی سماع میں بہت روتے کبھی کبھی زرد پڑ جاتے۔ آنکھوں کا پانی خشک ہو جاتا، جسم مبارک میں خون نہ رہتا۔ ایک زوردار نعرہ لگاتے اور آپ پر وجد طاری ہو جاتا۔ 
جب خواجہ عثمان ہارونی نماز ادا کر لیتے تو غیب سے آواز آتی کہ ہم نے تمھاری نماز پسند کی۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟ 
خواجہ صاحب عرض کرتے: خدایا! میں تجھے چاہتا ہوں۔ آواز آتی کہ عثمان! میں نے جمال لا زوال تمھارے نصیب کیا، کچھ اور مانگو کیا مانگتے ہو؟ عرض کرتے : الٰہی! مصطفیٰ کریم ﷺکی امت کے گناہ گاروں کو بخش دے۔ 
آواز آتی کہ امت محمد ﷺ کے تیس ہزار گناہ گار تمھاری وجہ سے بخش دیے، آپ کو پانچوں وقت یہ بشارت ملتی تھی۔ 
*(اہل سنت کی آواز:204)*

حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللّٰه علیہ نے طویل سفر کے بعد مکۃ لمکرمہ جاکر معتکف ہوگئے۔ آپ نےحق تعالیٰ سے آخری عمر میں دو خصوصی دعائیں مانگی تھیں۔ ایک یہ کہ میری قبر مکۃ المعظمہ میں ہو اور اس کا نشان باقی رہے تاکہ لوگ فاتحہ کا ایصال ثواب کرتے رہیں۔ کیونکہ کثرت کی وجہ سے وہاں قبروں کا نشان نہیں رکھتے تھے۔ دوسری دعا آپ نے یہ مانگی تھی کہ میرے روحانی فرزند معین الدین نے مدت دراز تک مقام تجرید و تفرید میں بندہ کی خدمت کی ہے اسے وہ ولایت عطا فرما کہ کسی اور کو اس قسم کی ولایت عطا نہ ہوئی ہو۔ ہاتف نے آواز دی کہ تمھاری قبر مکہ میں ہوگی اور اس کا نشان کوئی نہ مٹا سکےگا، اور معین الدین کو ہندوستان کی وہ ولایت عطا ہوگی کہ جو آج تک ہم نے کسی کو نہیں دی۔لیکن انہیں چاہئے کہ پہلے مدینۃ المنورہ جائیں اور محمدﷺ کی اجازت سے ہند کی ولایت میں جاکر تصرف کریں۔ 
پس حضرت خواجہ عثمان رحمۃ اللّٰه علیہ نے اجابتِ دعا پر سجدۂ شکر ادا کیا۔
*(ایضا:204 بحوالہ مرآۃ الاسرار:561)*

آپ سراپا فضل و کرامت تھے۔جس پہ ایک نگاہ ڈالتے بس ایک ہی نگاہ میں اس کا باطن سنوار کر ولایت کے مقام پر فائز کر دیتے۔ کتنے کفار آپ کے دست اقدس پر مشرف بااسلام ہوئے۔بےشمار فجار و فساق تائب ہوئے۔بہت سے ولایت کے مناصب علیا پر فائز ہوئے۔ ایک مقام پر آپ تشریف لےگئے وہاں مجوسی تھے۔ وہ آگ کی پوجا کر رہے تھے۔ آپ نے انہیں دعوت توحید دی۔ انہوں نے انکارکیا۔ آپ ان کا ایک چھوٹا بچہ لےکر آگ میں داخل ہوگئے آگ نے کچھ نہیں کہا بلکہ وہ گلزار ہوگئی۔ بہت دیر تک آگ میں رہے۔ جب باہر تشریف لائے تو سارے مجوسی مسلمان ہوگئے۔ آپ کی سب سے بڑی کرامت سلطان الہند عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰه علیہ کی ذات گرامی ہے۔
اسی طرح شیخ الاسلام حضرت شیخ نجم الدین صغریٰ رحمہ اللّٰه، ایسے نفوس قدسیہ جن کی تبلیغ سے لاکھوں غیر مسلم مشرف بااسلام ہوئے۔ 
آپ کے ملفوظات ’’انیس الارواح‘‘ کے نام سے حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللّٰه علیہ نے جمع فرمائے ہیں۔ اسی طرح اللہ جل شانہ نے آپ کو ذوق شاعری بھی عطا فرمایا تھا۔
؏: نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بایں ذوق کہ پیشِ یار می رقصم

آپ کا مشہور ِزمانہ کلام ہے۔

*تاریخِ وصال:* آپ کا وصال 5/شوال المکرم 617ھ مطابق 3/دسمبر 1220ء کو مکۃ المکرمہ میں ہوا۔ آپ کی قبر انور شریف حسین کے محل کے احاطے میں واقع ہے۔ قبر آج تک محفوظ ہے، اور اس کے گرد لکڑی کا چبوترہ ہے۔ یہ آپ کی دعا کا اثر ہے کہ نجدی و وہابی حکومت بھی آپ کی قبر کا نشان نہ مٹا سکی۔ 
*(انسائیکلو پیڈیا اولیاء کرام جلد نمبر 6۔*)

*ماخذ و مراجع:* سبع سنابل شریف۔ اہل سنت کی آواز مارہرہ مطہرہ2008ء۔ بہار چشت۔انسائیکلو پیدیا اولیاء کرام۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے