زید کو کسی نے ایک بکرا کہیں کا بھولا بھٹکا مل گیا اس نے ایک آدمی کو دے دیا اس آدمی نے اسے کچھ روپے دیئے وہ آدمی چلا گیا سال گزرنے کے بعد اس شخص نے سوچا کہ کیوں نہ اس بکرے کو اپنے استعمال میں لایا جائے یعنی اپنے بیٹے کے نام عقیقہ یا قربانی کر دیا جائے کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے

السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالٰی برکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کو کسی نے ایک بکرا کہیں کا بھولا بھٹکا مل گیا اس نے ایک آدمی کو دے دیا اس آدمی نے اسے کچھ روپے دیئے وہ آدمی چلا گیا سال گزرنے کے بعد اس شخص نے سوچا کہ کیوں نہ اس بکرے کو اپنے استعمال میں لایا جائے یعنی اپنے بیٹے کے نام عقیقہ یا قربانی کر دیا جائے کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عرش محمد آمنہ مسجد بنگلہ بازار لکھنؤ،
(وعلیکم السلام و رحمة الله و بركاته)،

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: صورت مسئولہ میں اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں، بلکہ ان پر لازم تھا، کہ اس کے مالک کو تلاش کر کے، اسے واپس کرتے، لہٰذا یہ دونوں گناہ گار ہوئے،
اور جس شخص نے اسے بکرا دیا، اس پر بھی اس رقم کا استعمال جائز نہیں،
اس لیے اب اس پر لازم ہے، کے یا تو اصل مالک کو تلاش کرے، اور اسے بکرا واپس کرے، اور اگر اسے تلاش کرنا ممکن نہ ہو، تو پھر شرعی فقیر کو صدقہ کرے،
زید کے لیے یہ حلال نہیں کہ کسی اجنبی کے مال کو کسی کے ہاتھوں فروخت کرے، تواگرزید نے اس کو بغیر بتائے بیچ دیا اور خریدنے والے کو اس کا علم نہیں تو وہ اس باب میں مکلف نہیں،
تو جب شخص مذکورنے اس جانور کی قیمت ادا کردی تو وہ اس کی ملک ہے اس میں جیسا چاہے تصرف کرے چاہے عقیقہ کرے یا قربانی جائز ہے،
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
عبده المذنب محمد شبیر عالم الثقافي غفرله

١٨/رمضان المبارک ١٤٤١ھ مطابق ١٢ مئ٢٠٢٠ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے