الجواب بعون الملك الوهاب صورت مستفسرہ میں روزہ کی بجائے اس کا فدیہ ادا کرنا شیخ فانی کے لئے ہے مریض کے لیے نہیں شیخ فانی وہ شخص ہے جس کی عمر اتنی زیادہ ہوگئی کہ اب دن بدن کمزور ہی ہوتا جائے گا یعنی نہ اب رکھ سکتا نہ آئندہ رکھنے کی کوئی امید ہو چاہے سردی یا گرمی کا موسم ہی کیوں نہ ہو تو ایسا شخص فدیہ ادا کرے جیسا کہ در مختار میں ہے وللشيخ الفانى العاجز عن الصوم الفطر ويفدى(ص١٥٠) زید کے اندر اگر روزہ رکھنے کی طاقت ہے تو فدیہ ادا کرنے سے ہرگز بری نہیں ہوگا اس پر ان تمام روزوں کی قضا فرض ہےکسی بیماری میں مبتلا ہونا بھی روزہ چھوڑنے کا عذر نہیں ہے بہت سے شوگر و گردے کا مرض والے بھی روزہ رکھتے ہیں ہاں البتہ مرض اتنا شدید ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے ضرر پہنچے گا تو صحت میں تندرستی آنے تک روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے اور اسکے بدلے مسکین کو کھانا کھلادے تو مستحب ہے مگر یہ کھانا کھلانا اس کے روزے کا بدل نہیں ہے بلکہ صحت ہونے پر ان روزوں کی قضا لازم ہے
البتہ اگر اسی مرض ہی کی حالت میں بڑھاپے کو پہنچ گیا اور اس بڑھاپے کی وجہ سے فی الحال اور آئندہ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہے تو ایسا شخص شیخ فانی کے حکم میں ہے اب وہ شخص اس صورت میں قضا شدہ روزوں کا فدیہ ادا کرے جیسا کہ اعلی حضرت فتاویٰ رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں بعض جاہلوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ روزہ کا فدیہ ہر شخص کے لیے جائز ہے جبکہ روزے میں اسے کچھ تکلیف ہو ایسا ہرگز نہیں فدیہ صرف شیخ فانی کے لیے رکھا ہے جو بہ سبب پیرانہ سالی حقیقتاً روزہ کی قدرت نہ رکھتا ہو نہ آئندہ طاقت کی امید کہ عمر جتنی بڑھے گی ضعف بڑھے گی اس کے لیے فدیہ کا حکم ہے اور جو شخص روزہ خود رکھ سکتا ہو اور ایسا مریض نہیں جس کے مرض کو روزہ مضر ہو اس پر خود روزہ رکھنا فرض ہے اگرچہ تکلیف ہو(ج، ١٠،صفحہ ٥٢٨)
صورت مسئولہ میں اگر زید کا مرض ہمیشہ رہے یہاں تک کہ وفات پاجائے ایسی صورت میں قضا واجب ہی نہ ہوگی اور اگر زید نے صحت پالیا اور وقت پالیا کہ وہ فوت شدہ روزہ رکھ سکتا ہے تو اتنے روزوں کی قضا اسکے ذمہ واجب ہوگی اور اگر اس صورت میں اس نے قضا نہ کی کہ موت کا وقت آگیا تو واجب ہے کہ وصیت فدیہ کردے اور ہر ایک روزہ کا فدیہ صدقہ فطر کی مقدار کے برابر ہے تقريبا دو کلو سینتالیس گرام گندم سے یا چار کلو چورانوے گرام جو و کھجور و کشمش سے جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے لو فات صوم رمضان بعذر المرض او السفر واستدام المرض والسفر حتى مات لا قضاء عليه لكنه ان أوصى بأن يطعم عنه صحت وصيته وان لم تجب عليه ويطعم عنه من ثلث ماله فإن برئ المريض او قدم المسافر وادرك من الوقت بقدر مافاته فيلزمه قضاء جميع ماادرك فإن لم يصم حتى ادركه الموت فعليه ان يوصى بالفدية كذا فى البدائع ويطعم عنه وليه لكل يوم مسكينا نصف صاع من بر او صاعا من تمر او صاعا من شعير كذا فى الهداية فإن لم يوص وتبرع عنه الورثة جاز ولا يلزمهم من غير ايصاء(ج،١ص،٢٢٨) اور فتاویٰ مفتی اعظم میں بھی ایساہی ہے (ج٣، ص٣١٧)والله تعالى اعلم بالصواب
كتبه عبده المذنب محمد توقير عالم الثقافي غفرله
١١/رمضان المبارك ١٤٤١ھ مطابق ٥،مئ ٢٠٢٠
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں