پہلے زمانے کے اور موجودہ زمانے کے لوگوں کا حال
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
امام محمد غزالی رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں:
’’پہلے زمانے کے لوگ دن رات عبادت کرتے اور جو بھی عمل کرتے دل میں خوفِ خدا رہتا تھا کہ انہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف لوٹ کر جانا ہے، وہ رات دن عبادت میں گزارنے کے باوجود اپنے نفسوں کے بارے میں خوف زدہ رہتے تھے، وہ بہت زیادہ تقویٰ اختیار کرتے اور خواہشات اور شبہات سے بچتے تھے، اس کے باوجود وہ تنہائی میں اپنے نفسوں کے لئے روتے تھے۔
لیکن اب حالت یہ ہے کہ تم لوگوں کو مطمئن، خوش اور بے خوف دیکھو گے حالانکہ وہ گناہوں پر اوندھے گرتے ہیں، دنیا میں پوری توجہ رکھے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے منہ پھیر رکھا ہے، ان کا خیال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر کامل یقین رکھتے ہیں، اس کے عفو و درگزر اور مغفرت کی امید رکھتے ہیں گویا ان کا گمان یہ ہے کہ انہوں نے جس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی معرفت حاصل کی ہے اس طرح انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پہلے بزرگوں کو بھی حاصل نہ تھی۔ اگر یہ بات محض تمنا اور آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے تو ان بزرگوں کے رونے، خوف کھانے اور غمگین ہونے کا کیا مطلب تھا۔
حضرت معقل بن یسار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں قرآن پاک ان کے دلوں میں ایسے پرانا ہوجائے گا جیسے بدن پر کپڑے پرانے ہو جاتے ہیں، ان کے تمام کام لالچ کی وجہ سے ہوں گے جس میں خوف نہیں ہوگا، اگر ان میں سے کوئی اچھا عمل کرے گا تو کہے گا یہ مقبول ہوگا اور اگر برائی کرے گا تو کہے گا میری بخشش ہوجائے گی۔
*( احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الغرور، بیان ذمّ الغرور وحقیقتہ وامثلتہ، ۳ / ۴۷۴)*
یہ امام غزالی رحمۃ اللّٰه علیہ نے آج سے تقریباً 900 سال پہلے کے حالات لکھے ہیں اور فی زمانہ تو حالات اس سے کہیں زیادہ نازک ہو چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور نیک اعمال کے سلسلے میں اپنے بزرگوں کی راہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں