*امیر المومنین اور عید*
حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت کا زمانہ ہے ۔دارالخلافت دمشق میں عید کا چاند دیکھ کر ہر طرف خوشی کی لہریں دوڑی ہوئی ہیں ہر گھر میں چہل پہل ہے ،ہر شخص عید کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔ بچے مسرت کے مارے ہر طرف کودتے پھر رہے ہیں اور اپنے نئے کپڑے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ،اسی خوشی کے عالم میں ایک بچہ غمگین اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور اپنی ماں کے پاس جاکر رونے لگتا ہے ،ماں گھبراکر پوچھنے لگتی ہے " میرے بچے تجھ پر قربان آج کیوں رورہا ہے ؟" دیکھ تو سب بچے کتنے خوش پھر رہے ہیں یہ بچہ سسکیاں بھرتا ہوا کہتا ہے "اماں جان اس لئے تو روتا ہوں ،ہمارے خاندان کے سب بچے اچھے اچھے کپڑے پہن کر کل عیدگاہ جائیں گے مجھے پرانے کپڑے پہن کر جاتے ہوئے شرم آئے گی "
جانتے ہو یہ بچہ کون ہے ؟ یہ مسلمانوں کے سب سے بڑے سردار خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا بچہ ہے بچے کو کپڑوں کے لئے روتا دیکھ کر ماں کا دل بے قابو ہوگیا ،اپنے بچے کو سینہ سے لگاکر تسلی دیتے ہوئے کہا " رو مت ،میرے جگر پارے ! تھوڑی دیر کے بعد امیر المومنین آجائیں گے۔ میں ان سے کہہ کر تمہارے لئے بھی نئے کپڑے منگوادوں گی "
یہ سن کر بچے کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور مسکراکر بولا اماں جان ! میرے لئے ایک ایسی عبا ضرور منگوادیجئے جیسی جعفر کو اس کے اَبَّا نے لاکر دی ہے"
اتنے میں امیر المومنین تشریف لے آئے بیوی نے کہا "کل عید ہے ، بنو امیہ کے سب بچوں کے لئے نئے کپڑے بنے ہیں مگر ہمارے بچوں کے لئے خلیفہ ہوتے ہوئے بھی پرانے کپڑے ہیں "
امیر المومنین :۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ سلطنت کا کام کرنے کے بدلے میں مجھے صرف دودرھم روزانہ ملتے ہیں اسی تھوڑی سی رقم میں کھانے پینے کا کام بھی مشکل سے ہوتا ہے رہا بیت المال تو وہ عام مسلمانوں کا ہیسہ ہے جس پر یتیموں ،بیواؤں کا حق ہے "
بیوی :۔ مگر بچے تو رو رہے ہیں ،ننھا کہتا ہے اسے عیدگاہ جاتے ہوئے شرم آئے گی ۔
امیر المومنین :۔ اچھا اگر تمہارے پاس کوئی زیور ہوتو اسے بیچ کر بچوں کی خوشی پوری کردو۔،،
بیوی :۔ میرے پاس تو کوئی زیور نہیں ہے آپ ہی نے خلیفہ ہوتے ہی میرے جہیز کا سامان ، زیور یہ کہہ کر بیت المال میں داخل کردیاتھا کہ یہ بیت المال کے پیسوں سے بنا ہے اس لئے اس پر ہمارا کوئی حق نہیں ،، امیر المومنین سر جھکاکر تھوڑی دیر کچھ سوچتے رہے پھر بیت المال کے مہتمم کو خط بھیجا کہ مجھے اگلے مہینے کا وظیفہ پیشگی دے دو ۔،، مہتمم کا جواب آیا کہ امیر المومنین غلام تعمیل حکم کے لئے حاضر ہے لیکن آپ کو یہ کیسے یقین ہوگیا کہ آپ ایک مہینہ تک زندہ رہیں گے ۔بغیر اس اعتماد ویقین کے آپ مسلمانوں کے پیسے کی ذمہ داری کیوں لیتے ہیں ؟
یہ جواب پڑھ کر احساس فرض سے آپ کا سینہ گھٹنے لگا ،بھرائی ہوئی آواز میں آپ نے فرمایا " کہ خدا کی قسم مہتمم نے مجھے ایک گناہ سے بچالیا ۔اس کے بعد امیرالمومنین نے بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایاکہ :۔
" *بیٹے ! جو بچے دنیا میں صبر اور شکر کے ساتھ پرانے کپڑے پہن کر گذارہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں قیمتی کپڑے پہناتا ہے ،پرانے کپڑے پہننے میں کوئی شرم نہیں ،شرم تو اس میں ہے کہ " آدمی خدا کی اطاعت اور مخلوق کی خدمت سے منہ موڑلے یا ظلم وزیادتی یا دھوکہ سے روپیہ حاصل کرکے اپنی خواہش پوری کرے* " بچے کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور دوسرے دن اسی پرانے کپڑوں میں ہنسی خوشی عید منائی ع
ناز کرتے ہیں مسلمان ان کی ذات پر ۔
(تاریخی کہانیاں)
اللہ رب العزت تمام مسلمانوں کو عید کی صحیح خوشی نصیب کرے آمین ۔
✍🏿 *محمد منصور عالم نوری مصباحی*
8484078468۔
عید کا موقعہ قریب ہے پسند آئے تو شیئر ضرور کریں۔
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں