*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯شیخ الاسلام حضرت مولانا شاہ عبد القدیر قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسم گرامی:* حضرت مولانا شاہ عبدالقدیر بدایونی۔
*کنیت:* ابوالسالم۔
*لقب:* شیخ الاسلام، عاشق رسولﷺ، ظہورِ حق۔
*سلسلہ نسب اس طرح ہے:* حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی بن تاج الفحول محب رسول مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی بن سیف اللہ المسلول حضرت مولانا شاہ فضل ِرسول بدایونی بن عین الحق شاہ عبد المجید بدایونی، بن شاہ عبد الحمید بدایونی۔رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
سلسلۂ نسب حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ تک منتہی ہوتا ہے۔
*(اکمل التاریخ:33)*
*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 11/شوال المکرم 1311ھ، مطابق وسط اپریل/1894ء کو بدایوں شریف (انڈیا) میں ہوئی۔
*ولادت سے قبل بشارت:* آپ کی ولادت سے قبل ہی جد کریم سیف اللہ المسلول حضرت مولانا شاہ فضل رسول بدایونی رحمۃ اللّٰه علیہ نے 1283ھ /1866ء میں ہی بشارت دے دی تھی کہ اس وقت تشریف لانے والے عبدالمقتدر ہیں، اور دوسرے صاحبزادے تشریف لائیں گے تو ان کا نام عبدالقدیر ہوگا۔ اسی وقت دونوں صاحبزادوں کےلئے تعویذ بھی عنایت فرمائے۔ یعنی آپ پر حضرت سیف اللہ المسلول رحمۃ اللّٰه علیہ کی پہلے سے ہی توجہات و عنایات کی بارش ہونے لگی تھی۔
*(تذکار محبوب:9)*
*تحصیلِ علم:* مولانا شاہ مطیع الرسول عبد المقتدر قدس سرہٗ کی آغوش میں پرورش پائی، ابتدائی تعلیم حافظ غوثی شاہ، مولوی سید الطاف علی، مولوی سید عبد الحی سے پائی۔ درس نظامی کی کتب متداولہ مولانا فضل احمد قادری، مولانا محب احمد قادری، مولانا حافظ بخش قادری اور برادر بزرگ سے پڑھیں، مولانا حبیب الرحمٰن قادری بد ایونی سے بھی کسب علم کیا،1331ھ میں فراغت کے بعد متواتر "کابوس’’ کا دورہ پڑا، علاج کے لیے حضرت العلامہ حکیم سید برکات ٹونکی کے پاس گئے، تین ماہ تک اُن کی خدمت میں رہ کر علوم عقلیہ کی کتابوں کا درس لیا، اورر ام پور میں مولانا سید عبد العزیز انبیٹھوی تلمیذ مولانا عبد الحق خیر آبادی سے قدماء کی کتابیں پڑھیں، درس و تدریس کی لیاقت ورثہ میں پائی تھی، مُدتوں مدرسہ عالیہ قادریہ میں طلبہ کو پورے انہماک کےساتھ تعلیم دی۔
*بیعت و خلافت:* سلسلہ عالیہ قادریہ میں اپنے برادر بزرگوار جامع شریعت و طریقت حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالمقتدر قادری بدایونی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بیعت و مجاز ہوئے۔ اسی طرح نقیب الاشراف خانقاہ قادریہ بغداد معلی کے مسند نشین حضرت شیخ حسام الدین کی طرف سے اجازت حاصل تھی۔
*سیرت و خصائص:* شیخ الاسلام، محسن اہل اسلام، مجاہد کبیر، جامع العلوم، محبوب حضرت محبوب سبحانی، عاشقِ رسول ﷺ، مفتی اعظم ریاست حیدر آباد دکن، حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالقدیر قادری بدایونی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
آپ علیہ الرحمہ خاندان عثمانیہ کے فرد وحید اور حضرت سیف اللہ المسلول، اور حضرت تاج الفحول علیہماالرحمہ کے سچے جانشین، اور ملت اسلامیہ کے صحیح نقیب تھے۔ آپکی ذات گرامی عجیب وغریب جامعیت کی حامل تھی۔ معقولی سلسلہ خیرآباد کے روشن چراغ، پچاسوں علماء کے استاذ، ہزاروں کے شیخ طریقت، ریاست حیدرآباد کے مفتیِ اعظم، خانقاہ قادریہ کے سجادہ نشین، اپنے اکابر کی علمی و روحانی امانتوں کے وارث و امین، قومی اور ملی قائد، تحریک آزادی کے مرد مجاہد، بیک وقت حیدر آباد حجاز اور عراق کےشاہی خاندانوں کے اور فقراء و درویشوں سے یکساں تعلقات و روابط، حرمین شریفین، مسجد اقصیٰ، اور جامع قادریہ بغداد شریف میں امامت و خطابت، ایسے کمالات و اوصاف فرد واحد میں جمع ہونا ناممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہے۔
*جذبۂ حریت:* فرنگی تاجوں کے ہاتھوں جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت زوال پذیر ہوئی تو آخری جد و جہد کے منظم کرنے والوں میں اکابر علماء اہل سنت ہی تھے۔ جن کےسرخیل وروح رواں حضرت علامۃ الدہر علامہ فضل حق خیر آبادی رحمہ اللّٰه، حضرت مفتی کفایت علی کافی، مفتی عنایت علی کاکوروی، مولانا رضا علی خان بریلوی، حضرت سیف اللہ المسلول اور حضرت تاج الفحول، حضرت مولانا کیرانوی علیہم الرحمہ کے اسماء نمایاں ہیں۔ بالخصوص حضرت کے جد امجد حضرت سیف اللہ المسلول رحمہ اللّٰه مولانا فضل حق خیرآبادی رحمہ اللّٰه کے معاصر تھے، اور فرنگی دشمنی میں ان کے شریک حال، یہی وجہ ہے کہ اس خانوادے کو ہمیشہ سے انگریز سرکار سے نفرت رہی۔حضرت مولانا شاہ عبدالقدیر بدایونی رحمۃ اللّٰہ علیہ نےانھیں جذبات کو اپنے سینے میں موجزن پایا اور علمی طور پر ہر اس تحریک کے روح رواں رہے جو فرنگیوں کے خلاف ہوتی تھی۔ آپ کے رفقاء خاص میں حضرت مولانا شاہ مصباح الحسن پھپھوندی، رئیس الاحرار حضرت مولانا حسرت موہانی، مولانا عبدالباری فرنگی محلییہ حضرات انگریز کےخلاف اور ان کو نقصان پہنچانے کے ہر طریقے کوصحیح سمجھتے تھے۔
آپ نے عرب میں انگریز کی کارستانیاں اور بالخصوص حجاز مقدس میں سعودیوں کے غصب اور ارض مقدس فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری پر کانفرنسیں منعقد کیں، اور ان علاقوں کے دورے کر کے مسلمانوں کو بیدار کیا۔ آپ رحمہ اللّٰه حجاز مقدس میں سعودیوں اور ارض مقدس فلسطین میں یہودیوں کی حکومت کو بیسویں صدی کا انگریز کا سب سے بڑا فتنہ تصور کرتےتھے۔ آپ علیہ الرحمہ کی عالمی امور پر اور مسلمانوں کے معاملات پر گہری نظر ہوتی تھی۔ آپ مسلمانوں کی کامیابی و ترقی کےلئے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے۔ دنیا کےکسی کونے میں اگر مسلمانوں پر کوئی ظلم و جبر ہوتا، یا ان کے علاقوں میں فرنگیوں کی طرف سے شورش برپا ہوتی تو آپ ماہی بے آب کی طرح بےقرار ہو جاتے۔ جنگ ِ بلقان میں مسلمانوں کی کامیابی کےلئے آپ کی دعا ایسی رقت انگیز تھی کہ بےخودی میں آپ کے عمامے شریف کےپیچ کھل گئے مجلس دعا میں ایک کیفیت طاری ہوگئی تھی۔
مولانا قطب الدین عبد الوالی کے ساتھ صوبہ سرحد کا دورہ کیا، انگریزی حکومت کی دست درازی سے ریاستوں کو بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے لاہور میں کل ہند کانفرنس بلائی، اور خطبہ صدارت پڑھا۔ مسجد شہید گنج کی واپسی کے لیے حضرت مولانا پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمہ اللّٰه نے جدو جہد کی تو آپ نے اُن کی پوری مدد کی۔ انگریزوں نے عرب اکثریت کا توازن برباد کرنے کے لیے ارض مقدس میں باہر سے یہودیوں کو لاکر آباد کرنا شروع کیا اور عربوں نے اُن کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تو حالات کا مشاہدہ کرنے کے لیے آپ نے ہندوستان کے نمائندہ کی حیثیت سے فلسطین کا سفر کیا۔ مفتئ اعظم فلسطین سید امین الحسینی نے عربی یونیورسٹی کےلیے ہندوستان کا دورہ کیا تو اُس کے ترجمان اور سیکرٹری کا کام کیا۔
اسی زمانے میں میر عثمان علی آصف جاہ سادس والیِ سلطنت آصفیہ نے محکمہ امور مذہبی کے صدر الصدور کے لیے آپ کا انتخاب کے لیے آپ کا انتخاب کیا، مگر سابقہ انگریز دشمن سیاسی زندگی کی بناء پر انگریزی حکومت نے اس عہدہ پر آپ کا تقرر مناسب نہ سمجھا، اور عدالت عالیہ (ہائیکورٹ) میں منصف اعظم مقرر کیا گیا۔ دو بار حج و زیارت سے مشرف ہوئے اندرون خانۂ کعبہ غسل میں شرکت کی، حرم نبوی اور روضۂ مطہرہ کی خلوت خاص میں باریاب ہوئے۔ دربار غوث اعظم کی حاضری معمولات سے تھی، آپ سب سے پہلے عالم و بزرگ تھے جن کو دربار شریف میں امامت و خطابت کا اعزاز ملا، اسی طرح مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی رحمہ اللّٰه کے بے حد اصرار پرنے مسجداقصی میں جمعہ کی نماز اور فصیح عربی زبان میں خطبہ دیا۔ ایک مرتبہ گیارہویں شریف کی محفل میں آپ بغداد معلی میں صاحبزادگان غوث الاعظم کے ہمراہ تشریف فرما تھےکہ جنرل فوزی حاضر ہوئے اور اپنا خواب بیان کیا کہ سرکار بغداد تشریف لائے اور فرمایا:
’’مولوی کی طرف سے گیارہویں ہے اس میں شرکت کرو اور ان کو ہمارا سلام پہنچاؤ‘‘۔
پھر جنرل صاحب نے آپ سے سلسلۂ عالیہ میں داخل کرنے کی درخواست کی آپ نے اسے سلسلہ عالیہ میں داخلِ بیعت فرمایا۔ آپ کا قوت حافظہ بہت قوی تھا۔ اقوال فقہاء و محدثین و صوفیاء ازبر تھے ہزارہا اشعار یاد تھے خود بھی شعر موزوں فرماتے تھے۔ حضرت علامہ مولانا عبدالحامد بدایونی آپ کے ابتدائی تلامذہ میں سے ہیں۔
*تاریخِ وصال:* آپ کا وصال 3/شوال المکرم 1379ھ مطابق 31/ مارچ 1960ء کو بوقتِ عصر 5:00 بجے ہوا۔ درگاہ قادری بدایوں میں سپرد خاک ہوئے۔
*ماخذ و مراجع:* تذکرہ علمائے اہل سنت۔ تذکار المحبوب۔ خیر آبادیات۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں