🌸 خلیفہ صدر الافاضل محقق عصر ،فقیہ زماں، محدث دوراں، سیدی فقیہ اعظم پاکستان ابوالخیر مفتی نور اللہ نعیمی قدس سرہ العزیز ۔بانی دارالعلوم حنفیہ فریدیہ (بصیر پور پاکستان) 🌸
مجمع علم و عرفان ، شیخ الحدیث و التفسیر حضرت فقیہ اعظم مفتی ابوالخیر محمد نور اللہ نعیمی قدس سرہ العزیز بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے ان مقبول اور برگزیدہ بندوں میں سے ہیں جن کا دوام جریدہ عالم پر ثبت ہو چکا ہے ------
آپ نسباً ارائیں، مسلکاً حنفی اور مشرباً قادری تھے۔ آپ کے آباء و اجداد صوفی مشرب، پاکیزہ سیرت اور صاحبِ دل بزرگ تھے
🌹پیدائش
آپ کی ولادت باسعادت ١٦/ رجب المرجب ١٣٣٢ھ، بمطابق ١٠/جون ١٩١٤ء کو ہوئی۔ ولادت سے قبل آپ کے بزرگوں کو دین مصطفوی کی شمع فروزاں کرنے والی عظیم شخصیت کے ظہور کی متعدد بشارتیں بذریعہ خواب اور بذریعہ مختلف اولیاء کرام مل چکی تھیں
🌹تحصیل علم
ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد متحدہ ہندوستان کے دور دراز مقامات پر جا کر متعدد علماء کرام سے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل کی۔ اس سلسلے میں استاذ العلماء حضرت مولانا فتح محمد حبیبوی محدث بہاول نگری (متوفی ١٣٨٩ھ/ ١٩٦۹
ء) کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ آپ نے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل کے بعد ١٣٥١ھ/ ١٩٣٣ء میں مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں داخلہ لیا، جہاں شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا سید محمد دیدار علی شاہ الوری (م ١٣٥٤ھ/ ١٩٣٥ء) اور مفتی اعظم پاکستان مولانا ابوالبرکات سید احمد قادری (م ١٣٩٨ھ/ ١٩٧٨ء) سے دورہ حدیث شریف پڑھا۔ دورہ حدیث مکمل کرنے کے بعد ٦/شعبان ١٣٥٢ھ ، بمطابق ٢٣/ نومبر ١٩٣٣ء کو سند و دستار فضیلت عطا کی گئی۔ اس موقع پر امام اہل سنت محدث الوری نے آپ کو مطبوعہ سند کے علاوہ خصوصی اسناد سے بھی نوازا اور ابوالخیر کنیت عطا فرمائی۔
🌹القاب
مفتی اعظم مولانا ابوالبرکات شاہ صاحب نے (انکا ذکر قسط نمبر: ۳ میں گزر چکا)نے آپ کو فقیہ زماں ، محدث دوراں ، فقیہ العصر، فقیہ النفس ، مفتی اعظم اور فقیہ اعظم وغیرہ جلیل القدر القاب سے ممتاز فرمایا ان گوناگوں اور متنوع القاب میں سے ''فقیہ اعظم'' کا لقب زبان زد خاص و عام ہے۔ اب فقیہ اعظم کہا جائے تو اہل علم اس سے آپ ہی کی ذات گرامی مراد لیتے ہیں
🌹مہارت علوم و فنون
حضرت فقیہ اعظم نور اللہ مرقدہ نے اپنی فطری ذکاوت و ذہانت سے زمانہ طالب علمی ہی میں ذاتی مطالعہ سے کم و بیش پچاس علوم و فنون میں وہ مہارت حاصل کی کہ باید و شاید۔ آپ کے اساتذہ بھی آپ کی علمی استعداد اور صلاحیت و قابلیت کے معترف تھے
🌹تدریسی خدمات
حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز نے تعلیم سے فراغت کے فوراً بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ١٣٥٧ھ/ ١٩٣٨ء میں تحصیل دیپال پور کے قصبے فرید پور میں دارالعلوم حنفیہ فریدیہ کے نام سے مدرسے کی داغ بیل ڈالی۔ آپ کی قابلیت اور پُرتاثیر تدریس کا شہرہ عام ہونے لگا، جملہ علوم و فنونِ درسِ نظامیہ کی تدریس کا کام تنہا انجام دیتے رہے۔ کسی بھی فن کا درس ہوتا، طلبہ کے قلوب و اذہان میں عشق مصطفی کی شمع فروزاں کرتے چلے جاتے
طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک عظیم الشان علمی ادارے کی متقاضی تھی، جس کے لیے یہ جاگیردارانہ ماحول مناسب نہ تھا، اس لیے آپ ١٣٦٤ھ/ ١٩٤٥ء میں بصیرپور میں تشریف لے آئے۔ یہ پس ماندہ علاقہ خصوصاً وہ خطہ زمین جس پر اب دارالعلوم موجود ہے، قذاقوں کا مسکن تھا۔ آپ کے قدوم میمنت لزوم سے یہ خطہ علم و عرفان کا گہوارہ بن گیا
آپ نے درس حدیث کا سلسلہ آخر عمر تک جاری رکھا، آپ سے فیض یافتگان کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے، جو ملک کے گوشے گوشے بلکہ بیرون ملک بھی درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور افتاء و تبلیغ کے ذریعے رشد و ہدایت میں مصروف ہیں
🌹بیعت و خلافت
تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت امام الھند صدر الافاضل فخرالاماثل علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ العزیز کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہوئے۔ حضرت سیدی صدر الافاضل نے آپ کو اپنے سلاسل حدیث کی اسناد، مختلف اشغال و اعمال اور اوراد و وظائف کی اجازت اور سلسلہ عالیہ قادریہ مکیہ کے علاوہ دیگر سلاسل میں بھی اجازت و خلافت سے نوازا
🌹اوصاف و خصائل
حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز کی شخصیت اس قدر پُرکشش تھی کہ ان کی خدمت میں حاضری دینے والا ہمیشہ کے لیے دامِ عقیدت و محبت میں گرفتار ہو جاتا۔ آپ سے متاثر ہو کر کئی بدمذہب اپنی بدعقیدگی سے تائب ہو کر مسلک اہل سنت کے مبلغ بنے۔ بے شمار لوگوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی، آپ کے مریدین و معتقدین پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں
حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز اپنے دور کی نادر روزگار شخصیت تھے، علم و فضل، تقویٰ و طہارت، تنظیم و سیاست اور ہمت و استقامت میں یکتائے روزگار تھے، یوں تو تفسیر، حدیث اور دیگر تمام مروج علومِ دینیہ میں کامل دسترس رکھتے تھے
🌹فقہ و افتاء
فقہ میں آپ کو تخصص کا درجہ حاصل تھا، اس لیے آپ کے ہم عصر اکابر علماء نے آپ کو فقیہ اعظم تسلیم کیا۔ فتاویٰ نوریہ کی چھ ضحیم جلدوں کے مطالعہ سے آپ کے تبحر علمی، وسعت نظر، عمیق مشاہدہ، قوت استدلال، صلابت رائے، جدت فکر اور فقہی بصیرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
🌹عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت فقیہ اعظم فنا فی الرسول اور فنا فی حب المدینہ تھے۔ آپ کی محفل میں حاضری سے شرف یاب ہونے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ سرکار دوعالم کے پیارے شہر مدینہ منورہ کا ذکر آتے ہی مرغ نیم بسمل کی طرح تڑپنے لگتے، درس حدیث دیتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے ابلنے لگتے، ایسا محسوس ہوتا کہ محبوب پاک کے جمال جہاں آراء کے دیدار میں محو ہیں
حضرت فقیہ اعظم نور اللہ مرقدہ کی پوری زندگی اتباعِ نبوی اور عشق مصطفوی سے عبارت تھی۔ ان کا چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، غرض ہر ہر ادا سنت مصطفی کے مطابق تھی۔ آپ اخلاقیات میں صاحب خلق عظیم کے مظہر اتم تھے۔ شخصیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ کی ذات شرافت و متانت، جرات و استقلال، ہمدردی و خیرخواہی، حلم و بردباری، بے لوثی و فرض شناسی، عالی ظرفی، علم و عمل، تواضع و انکساری، خداترسی اور پرہیزگاری کا مرقع تھی
🌹تصنیف و تالیف
حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز صاحب تصنیف عالم دین تھے۔ تدریسی و انتظامی مصروفیات کے باوجود آپ نے اٹھائیس تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ چند تصانیف کے نام درج ذیل ہیں:
١۔۔۔۔۔۔ فتاویٰ نوریہ، فقہ اسلامی کا یہ دائرۃ المعارف چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں---
٢۔۔۔۔۔۔ تنویر فئ الزوال بنور عدل فئ الزوال (عربی)، ١٣٦٠ھ/ ١٩٤١ء ---
٣۔۔۔۔۔۔ مکبر الصوت، ١٣٧٥ھ/ ١٩٥٦ء --- ٤۔۔۔۔۔۔ حدیث الحبیب، ١٣٨١ھ/ ١٩٦١ء ---
٥۔۔۔۔۔۔ نعمائے بحشش المعروف دیوان نور--- ٦۔۔۔۔۔۔ الافتاء فی جواز تعلیم الکتابۃ للنسا، ١٣٩٢ھ/ ١٩٧٢ء---
٧۔۔۔۔۔۔ حواشی صحیح بخاری (عربی)، غیر مطبوعہ--- ٨۔۔۔۔۔۔ حواشی صحیح مسلم (عربی)، غیر مطبوعہ---
٩۔۔۔۔۔۔ حواشی جامع ترمذی (عربی)، غیر مطبوعہ--- ١٠۔۔۔۔۔۔ فوائد ظہوریہ، حواشی شرح جامی (عربی)، غیر مطبوعہ---
١١۔۔۔۔۔۔ مکاتیب فقیہ اعظم (غیر مطبوعہ)--- وغیرہ
🌹وفات
حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز نے یکم رجب المرجب ١٤٠٣ھ، بمطابق ١٥/اپریل ١٩٨٣ء، بروز جمعۃ المبارک، دوپہر ایک بجے وصال فرمایا۔ آپ کا چہرئہ انور پھول کی طرح کھلا ہوا تھا اور اس پر نورانیت اور مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ روزنامہ مشرق لاہور نے اپنی ١٨/اپریل ١٩٨٣ء کی رپورٹ میں تحریر کیا:
''مولانا مرحوم کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ دیکھ کر لوگوں کا ایمان تازہ ہو رہا تھا۔''
محتاط اندازے کے مطابق شرکاء جنازہ کی تعداد دو لاکھ سے متجاوز تھی۔ آپ کا سالانہ عرس مبارک رجب المرجب کی پہلی اور دوسری تاریخ کو بڑی شان و شوکت سے بصیرپور شریف میں منعقد ہوتا ہے
(منقول)
✒️خیر خواہ اہلسنت
💐نازش المدنی مرادآبادی غفر لہ الھادی
واٹسپ نمبر :+918320346510💠سلسلہ(شخصیت شناسی) کی قسط نمبر :12حاضر ہے💠
🌸 خلیفہ صدر الافاضل محقق عصر ،فقیہ زماں، محدث دوراں، سیدی فقیہ اعظم پاکستان ابوالخیر مفتی نور اللہ نعیمی قدس سرہ العزیز ۔بانی دارالعلوم حنفیہ فریدیہ (بصیر پور پاکستان) 🌸
مجمع علم و عرفان ، شیخ الحدیث و التفسیر حضرت فقیہ اعظم مفتی ابوالخیر محمد نور اللہ نعیمی قدس سرہ العزیز بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے ان مقبول اور برگزیدہ بندوں میں سے ہیں جن کا دوام جریدہ عالم پر ثبت ہو چکا ہے ------
آپ نسباً ارائیں، مسلکاً حنفی اور مشرباً قادری تھے۔ آپ کے آباء و اجداد صوفی مشرب، پاکیزہ سیرت اور صاحبِ دل بزرگ تھے
🌹پیدائش
آپ کی ولادت باسعادت ١٦/ رجب المرجب ١٣٣٢ھ، بمطابق ١٠/جون ١٩١٤ء کو ہوئی۔ ولادت سے قبل آپ کے بزرگوں کو دین مصطفوی کی شمع فروزاں کرنے والی عظیم شخصیت کے ظہور کی متعدد بشارتیں بذریعہ خواب اور بذریعہ مختلف اولیاء کرام مل چکی تھیں
🌹تحصیل علم
ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد متحدہ ہندوستان کے دور دراز مقامات پر جا کر متعدد علماء کرام سے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل کی۔ اس سلسلے میں استاذ العلماء حضرت مولانا فتح محمد حبیبوی محدث بہاول نگری (متوفی ١٣٨٩ھ/ ١٩٦۹
ء) کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ آپ نے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل کے بعد ١٣٥١ھ/ ١٩٣٣ء میں مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں داخلہ لیا، جہاں شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا سید محمد دیدار علی شاہ الوری (م ١٣٥٤ھ/ ١٩٣٥ء) اور مفتی اعظم پاکستان مولانا ابوالبرکات سید احمد قادری (م ١٣٩٨ھ/ ١٩٧٨ء) سے دورہ حدیث شریف پڑھا۔ دورہ حدیث مکمل کرنے کے بعد ٦/شعبان ١٣٥٢ھ ، بمطابق ٢٣/ نومبر ١٩٣٣ء کو سند و دستار فضیلت عطا کی گئی۔ اس موقع پر امام اہل سنت محدث الوری نے آپ کو مطبوعہ سند کے علاوہ خصوصی اسناد سے بھی نوازا اور ابوالخیر کنیت عطا فرمائی۔
🌹القاب
مفتی اعظم مولانا ابوالبرکات شاہ صاحب نے (انکا ذکر قسط نمبر: ۳ میں گزر چکا)نے آپ کو فقیہ زماں ، محدث دوراں ، فقیہ العصر، فقیہ النفس ، مفتی اعظم اور فقیہ اعظم وغیرہ جلیل القدر القاب سے ممتاز فرمایا ان گوناگوں اور متنوع القاب میں سے ''فقیہ اعظم'' کا لقب زبان زد خاص و عام ہے۔ اب فقیہ اعظم کہا جائے تو اہل علم اس سے آپ ہی کی ذات گرامی مراد لیتے ہیں
🌹مہارت علوم و فنون
حضرت فقیہ اعظم نور اللہ مرقدہ نے اپنی فطری ذکاوت و ذہانت سے زمانہ طالب علمی ہی میں ذاتی مطالعہ سے کم و بیش پچاس علوم و فنون میں وہ مہارت حاصل کی کہ باید و شاید۔ آپ کے اساتذہ بھی آپ کی علمی استعداد اور صلاحیت و قابلیت کے معترف تھے
🌹تدریسی خدمات
حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز نے تعلیم سے فراغت کے فوراً بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ١٣٥٧ھ/ ١٩٣٨ء میں تحصیل دیپال پور کے قصبے فرید پور میں دارالعلوم حنفیہ فریدیہ کے نام سے مدرسے کی داغ بیل ڈالی۔ آپ کی قابلیت اور پُرتاثیر تدریس کا شہرہ عام ہونے لگا، جملہ علوم و فنونِ درسِ نظامیہ کی تدریس کا کام تنہا انجام دیتے رہے۔ کسی بھی فن کا درس ہوتا، طلبہ کے قلوب و اذہان میں عشق مصطفی کی شمع فروزاں کرتے چلے جاتے
طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد ایک عظیم الشان علمی ادارے کی متقاضی تھی، جس کے لیے یہ جاگیردارانہ ماحول مناسب نہ تھا، اس لیے آپ ١٣٦٤ھ/ ١٩٤٥ء میں بصیرپور میں تشریف لے آئے۔ یہ پس ماندہ علاقہ خصوصاً وہ خطہ زمین جس پر اب دارالعلوم موجود ہے، قذاقوں کا مسکن تھا۔ آپ کے قدوم میمنت لزوم سے یہ خطہ علم و عرفان کا گہوارہ بن گیا
آپ نے درس حدیث کا سلسلہ آخر عمر تک جاری رکھا، آپ سے فیض یافتگان کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے، جو ملک کے گوشے گوشے بلکہ بیرون ملک بھی درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور افتاء و تبلیغ کے ذریعے رشد و ہدایت میں مصروف ہیں
🌹بیعت و خلافت
تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت امام الھند صدر الافاضل فخرالاماثل علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ العزیز کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہوئے۔ حضرت سیدی صدر الافاضل نے آپ کو اپنے سلاسل حدیث کی اسناد، مختلف اشغال و اعمال اور اوراد و وظائف کی اجازت اور سلسلہ عالیہ قادریہ مکیہ کے علاوہ دیگر سلاسل میں بھی اجازت و خلافت سے نوازا
🌹اوصاف و خصائل
حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز کی شخصیت اس قدر پُرکشش تھی کہ ان کی خدمت میں حاضری دینے والا ہمیشہ کے لیے دامِ عقیدت و محبت میں گرفتار ہو جاتا۔ آپ سے متاثر ہو کر کئی بدمذہب اپنی بدعقیدگی سے تائب ہو کر مسلک اہل سنت کے مبلغ بنے۔ بے شمار لوگوں نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی، آپ کے مریدین و معتقدین پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں
حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز اپنے دور کی نادر روزگار شخصیت تھے، علم و فضل، تقویٰ و طہارت، تنظیم و سیاست اور ہمت و استقامت میں یکتائے روزگار تھے، یوں تو تفسیر، حدیث اور دیگر تمام مروج علومِ دینیہ میں کامل دسترس رکھتے تھے
🌹فقہ و افتاء
فقہ میں آپ کو تخصص کا درجہ حاصل تھا، اس لیے آپ کے ہم عصر اکابر علماء نے آپ کو فقیہ اعظم تسلیم کیا۔ فتاویٰ نوریہ کی چھ ضحیم جلدوں کے مطالعہ سے آپ کے تبحر علمی، وسعت نظر، عمیق مشاہدہ، قوت استدلال، صلابت رائے، جدت فکر اور فقہی بصیرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
🌹عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت فقیہ اعظم فنا فی الرسول اور فنا فی حب المدینہ تھے۔ آپ کی محفل میں حاضری سے شرف یاب ہونے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ سرکار دوعالم کے پیارے شہر مدینہ منورہ کا ذکر آتے ہی مرغ نیم بسمل کی طرح تڑپنے لگتے، درس حدیث دیتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے ابلنے لگتے، ایسا محسوس ہوتا کہ محبوب پاک کے جمال جہاں آراء کے دیدار میں محو ہیں
حضرت فقیہ اعظم نور اللہ مرقدہ کی پوری زندگی اتباعِ نبوی اور عشق مصطفوی سے عبارت تھی۔ ان کا چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، غرض ہر ہر ادا سنت مصطفی کے مطابق تھی۔ آپ اخلاقیات میں صاحب خلق عظیم کے مظہر اتم تھے۔ شخصیت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ کی ذات شرافت و متانت، جرات و استقلال، ہمدردی و خیرخواہی، حلم و بردباری، بے لوثی و فرض شناسی، عالی ظرفی، علم و عمل، تواضع و انکساری، خداترسی اور پرہیزگاری کا مرقع تھی
🌹تصنیف و تالیف
حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز صاحب تصنیف عالم دین تھے۔ تدریسی و انتظامی مصروفیات کے باوجود آپ نے اٹھائیس تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ چند تصانیف کے نام درج ذیل ہیں:
١۔۔۔۔۔۔ فتاویٰ نوریہ، فقہ اسلامی کا یہ دائرۃ المعارف چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں---
٢۔۔۔۔۔۔ تنویر فئ الزوال بنور عدل فئ الزوال (عربی)، ١٣٦٠ھ/ ١٩٤١ء ---
٣۔۔۔۔۔۔ مکبر الصوت، ١٣٧٥ھ/ ١٩٥٦ء --- ٤۔۔۔۔۔۔ حدیث الحبیب، ١٣٨١ھ/ ١٩٦١ء ---
٥۔۔۔۔۔۔ نعمائے بحشش المعروف دیوان نور--- ٦۔۔۔۔۔۔ الافتاء فی جواز تعلیم الکتابۃ للنسا، ١٣٩٢ھ/ ١٩٧٢ء---
٧۔۔۔۔۔۔ حواشی صحیح بخاری (عربی)، غیر مطبوعہ--- ٨۔۔۔۔۔۔ حواشی صحیح مسلم (عربی)، غیر مطبوعہ---
٩۔۔۔۔۔۔ حواشی جامع ترمذی (عربی)، غیر مطبوعہ--- ١٠۔۔۔۔۔۔ فوائد ظہوریہ، حواشی شرح جامی (عربی)، غیر مطبوعہ---
١١۔۔۔۔۔۔ مکاتیب فقیہ اعظم (غیر مطبوعہ)--- وغیرہ
🌹وفات
حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ العزیز نے یکم رجب المرجب ١٤٠٣ھ، بمطابق ١٥/اپریل ١٩٨٣ء، بروز جمعۃ المبارک، دوپہر ایک بجے وصال فرمایا۔ آپ کا چہرئہ انور پھول کی طرح کھلا ہوا تھا اور اس پر نورانیت اور مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ روزنامہ مشرق لاہور نے اپنی ١٨/اپریل ١٩٨٣ء کی رپورٹ میں تحریر کیا:
''مولانا مرحوم کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ دیکھ کر لوگوں کا ایمان تازہ ہو رہا تھا۔''
محتاط اندازے کے مطابق شرکاء جنازہ کی تعداد دو لاکھ سے متجاوز تھی۔ آپ کا سالانہ عرس مبارک رجب المرجب کی پہلی اور دوسری تاریخ کو بڑی شان و شوکت سے بصیرپور شریف میں منعقد ہوتا ہے
(منقول)
✒️خیر خواہ اہلسنت
💐نازش المدنی مرادآبادی غفر لہ الھادی
واٹسپ نمبر :+918320346510
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں