قوموں کی حیات انکے تخیل پہ ہے موقوف ‏

قوموں کی حیات انکے تخیل پہ ہے موقوف 

تحریر محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف

رکن روشن مستقبل ــ دہلی

سارے غم سارے گِلے شکوے بھلا کے اٹھو
دشمنی جو بھی ہے آپس میں بھلا کے اٹھو
اب اگر ایک نہ ہو پائے تو مٹ جاؤگے
خشک پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤگے

بقول حضرت ٹیپو سلطان علیہ الرحمہ "شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے" قوموں کا زوال انکی فکری پستی پر موقوف ہوتا ہے جس دن فکر مردہ ہوئی قوم مردہ ہوجاتی ہے اب جو سانسیں لیتے، چلتے چلتے پھرتے لوگ دکھائی دیتے ہیں انکی حیثیت "زونبی" سے زیادہ نہیں ہوتی، دکھتے انسان ہیں پر عقل سے پیدل ہوتے ہیں. 
پچھلے دو روز سے امریکا میں جارج فلایڈ نامی ایک کالے شخص کی موت کو لیکر ہنگامہ ہے جسے ایک پولیس مین نے قابو کرتے ہوے اسکی گردن پر اس طرح گھٹنا رکھا کہ اسکی موت ہوگئ، امریکا کے چالیس شہروں میں آگ زنی، توڑ پھوڑ کے ساتھ زبردست احتجاج ہو رہے ہیں. امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے تو سیکیورٹی فورسز کا دفاع کیا اور کہا کہ "جب لوٹنگ ہوگی تو شوٹنگ ہوگی" اسے ٹویٹر نے ہنسا کو بڑھاوا دینے والا ٹوئٹ مانتے ہوے چھپا دیا، لوگ سڑکوں پر پر ہیں، وہائٹ ہاؤس کا گھیراؤ ہوا ہے یہ سلسلہ دراز ہوتا دکھ رہا ہے، ہاتھوں میں اٹھائی گئ تختیوں میں جو نعرے لکھے ہیں وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ایک نعرہ ہے No justice, No peace یعنی جب تک انصاف نہیں تب تک ہنگامہ جاری رہے گا ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے. دوسری تختی پر یہ نعرہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے باعث شرم ہے we are not Arabs, to kill us and keep silent ،یعنی ہم عرب نہیں کہ آپ ہمیں مارتے رہیں اور ہم خاموش رہیں. I can't Breathe میں سانس نہیں لے سکتا،، یہ الفاظ مقتول جارج فلایڈ کے آخری الفاظ ہیں جو اب ایک نعرے کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں. امریکی معاشرے نے جس طرح حکومتی نا انصافی کیلئے خود کو سراپا احتجاج بنایا ہوا ہے وہ ہمارے لیے بھی مشعل راہ ہے کیونکہ "جو قوم مظلوموں کے لئے کھڑی نہیں ہوتی وہ لاشیں اٹھایا کرتی ہے"

ہندوستان کے مسلمانوں کا حال بھی کچھ اسی طرح ہے یہاں اخلاق، پہلو خان، جنید، جیسے سیکڑوں ماردیے گئے، NPR, NRC, CAA پر مظاہرہ کرنے والے ہمارے بھائی بہنوں کو جیل میں قید کردیا گیا ہے اور ہم خاموش ہیں، پوری قوم اگر سراپا احتجاج بن جائے تو کچھ نقصان ضرور ہوسکتا ہے مگر حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑے گا، احتجاج نہ کرنا اور ڈر کر بیٹھ جانا یہ اپنے آپ کو سرینڈر کرنے جیسا ہے جب بندہ قید میں ہو پھر وہ کچھ زیادہ نہیں کر سکتا اس لیے ہمیں وقت رہتے جاگنے کی ضرورت ہے ورنہ،، ہماری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں،، 
زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا 
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے 

سقوط غرناطہ، خلافت عثمانیہ، فلسطین، برما عراق، شام، لیبیا، افغانستان تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں اور اب یہاں ہمارے وجود کو خطرہ لاحق ہے مگر مسلم سیاست داں، پیران کرام، علمائے عظام سب کے سب خاموش ہیں جو قطعی مناسب نہیں. حکومت سختی بھی نہیں کرتی اور ہم دین سے لیکر دنیا تک کے ہر کام میں پہلے ہی سرینڈر کردیتے ہیں، جنگ آزادی کو ابھی بہت زمانہ نہیں گزرا کہ ہم نے انگریزوں کو بھاگنے پر مجبور کیا تھا، جنگ آزادی کا ایک نعرہ یاد رکھیے جو" سبھاش چندر بوس" نے دیا تھا کہ "تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دونگا" ہمیں ہمارے نوجوانوں کا قانونی دائرے میں رہتے ہوئے ساتھ دینا چاہیے ہر طرح سے ہمارے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے، حقوق پامال کئے جارہے ہیں، دین، دنیا کچھ بھی محفوظ نہیں ہے باوجود اس کے ہمارے لوگ خاموش ہیں افسوس! ہم صرف کھانے کمانے پر ہی فوکس کئے ہوے ہیں جبکہ ہمارے آگے کنواں پیچھے کھائی ہے. 
دہلی دورے کا مشاہدہ 
فروری میں" روشن مستقبل "کے وفد نے دہلی کا دورہ کیا جامع مسجد کے علاقے میں جانا ہوا تو ہم دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ پورا علاقہ قسم قسم کے کھانوں سے مزین ہے، کہیں بھنا، کہیں کباب، توکہیں لذیذ مشروبات کی خوشبوئیں پھیلی ہوئی ہیں، ہم نے ایک دوسرے سے کہا کہ کیا کہیں سے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا وجود خطرے میں ہے؟ اغیار ہماری جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم مرغن کھانوں سے آگے کچھ سوچ ہی نہیں پا رہے، انھیں بالکل احساس نہیں کہ جب ہم ہی نہ رہیں گے تو یہ عالیشان دوکانیں، مکان، جائدادیں کہاں رہیں گی ؟ پچھلے ستر سالوں میں جو غلطیاں ہوئیں ہیں وہ ہم اب بھی کر رہے ہیں، جب تک اپنے حقوق کے لئے تن، من، دھن سے نہ لگیں گے ہم دن بدن ذلت کی طرف بڑھتے جائیں گے. خصوصاً علما کو میدان میں آنا پڑے گا ورنہ نتیجہ پوری قوم کو صدیوں تک برداشت کرنا پڑے گا. آج ہر کوئی یہ سوچ رہا ہے کچھ لوگ احتجاج کر تو رہے ہیں ہمیں کیا ضرورت؟ دل پر ہاتھ رکھیے اور دماغ پر زور ڈالیے تو سمجھ آجائے گا کہ جیل جانے والے ہمارے بھائی اپنے لیے نہیں بلکہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے لئے اپنی جان جوکھم میں ڈال رہے ہیں جو آگ آپ تک آج نہیں پہونچی وہ کل ضرور پہنچے گی پر تب بجھانے والا کوئی نہ ہوگا. 

زندگی زندہ دلی کا نام ہے 
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں 
2/6/2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے