رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مالکیت

*📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚*
-----------------------------------------------------------
 *🕯رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مالکیت🕯* 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📬 اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ: یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں۔

اَولیٰ کے معنی ہیں زیادہ مالک، زیادہ قریب، زیادہ حقدار، یہاں تینوں معنی درست ہیں اور اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ دنیا اور دین کے تمام اُمور میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مسلمانوں پر نافذ اور آپ کی اطاعت واجب ہے اور آپ کے حکم کے مقابلے میں نفس کی خواہش کو ترک کر دینا واجب ہے۔ 
دوسرا معنی یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنین پر اُن کی جانوں سے زیادہ نرمی، رحمت اور لطف و کرم فرماتے ہیں اور انہیں سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں، جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘ 
*(توبہ:۱۲۸)* 
 *ترجمہ:* مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ 
*( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ۳ / ۴۸۳، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۳۲، ملتقطاً)* 

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’میری مثال اور لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی، جب اس نے اپنے ماحول کو روشن کیا تو پروانے اور آگ میں گرنے والے کیڑے 
اس میں گرنا شروع ہو گئے تو وہ آدمی انہیں آگ سے ہٹانے لگا لیکن وہ اس پر غالب آ کر آگ میں ہی گرتے رہے، پس میں کمر سے پکڑ کر تمہیں آگ سے کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ اس میں گرتے ہی جا رہے ہو۔ 
*( بخاری، کتاب الرقاق، باب الانتہاء عن المعاصی، ۴ / ۲۴۲، الحدیث: ۶۴۸۳)* 

امام مجاہد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ:
’’ تمام انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام اپنی امت کے باپ ہوتے ہیں اور اسی رشتہ سے مسلمان آپس میں بھائی کہلاتے ہیں کہ وہ اپنے نبی کی دینی اولاد ہیں۔ 
*( مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۶، ص۹۳۲)* 

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’سچی کامل مالکیت وہ ہے کہ جان و جسم سب کو محیط اور جن و بشر سب کو شامل ہے، یعنی اَوْلٰی بِالتَّصَرُّفْ (تصرف کرنے کا ایسا مالک) ہونا کہ اس کے حضور کسی کو اپنی جان کا بھی اصلاً اختیار نہ ہو۔ یہ مالکیت ِحقہ، صادقہ، محیط، شاملہ، تامہ، کاملہ حضور پُر نور مَالِکُ النَّاس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بخلافت ِکبرٰیٔ حضرت کبریا عَزَّوَعَلَا تمام جہاں پر حاصل ہے۔ 
قَالَ اللہ تَعَالٰی:
’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ‘‘
*ترجمہ:* نبی زیادہ والی و مالک و مختار ہے، تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں سے۔ 

اور اللہ تَبَارَک وَتَعَالٰی نے فرمایا:
’’وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا‘‘ (احزاب:۳۶) 
 *ترجمہ:* نہیں پہنچتا کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو جب حکم کردیں اللہ اور اس کے رسول کسی بات کا کہ انہیں کچھ اختیار رہے اپنی جانوں کا، اور جو حکم نہ مانے اللہ و رسول کا تو وہ صریح گمراہ ہوا۔

رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: 
’’اَنَا اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ‘‘ میں زیادہ والی و مالک و مختار ہوں، تمام اہلِ ایمان کا خود ان کی جانوں سے۔
*(بخاری، کتاب الکفالۃ، باب الدَّین،۲ / ۷۷، الحدیث: ۲۲۹۸)*
*( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: النور والضیاء فی احکام بعض الاسماء، ۲۴ / ۷۰۳-۷۰۴)*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے