جہنم سے آزادی کا پروانہ

جہنم سے آزادی کا پروانہ
"حضرت شیخ محیُّ الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حکایت بیان کی،کہ ایک سیدھاسادابھولابھالاشخص حج سے فارغ ہوکرطواف وِداع کررہاتھااس سے ایک شخص ملا،جس نے ازراہِ مذاق اس شخص سے کہا:ارے بھائی!کیاتم نے اللہ سے دوزخ سے نجات کا پروانہ لے لیا؟اس نے کہا: نہیں۔کیااورلوگوں نے لے لیا ہے۔اس نے کہا:ہاں،لوگوں نے لے لیا ہے۔وہ شخص رونے لگااورحطیم کعبہ میں جاکرغلافِ کعبہ سے لپٹ کر زاروقطار رونے لگا۔اوراللہ تعالیٰ سے دوزخ سے اپنی آزادی کا پروانہ مانگنے لگا،دوسرے لوگ اوراس کے ساتھی اس کوملامت کرنے لگےاوربتانے لگے کہ فلاں نے تیرے ساتھ مذاق کیا ہے۔اس شخص کو یقین نہ آیا،وہ برابرپروانۂ رہائ طلب کرتا رہا۔وہ اسی حال پر تھا کہ اچانک آسمان سے میزابِ رحمت کی جانب سے ایک پرچہ گِرا۔جس میں لکھا ہوا تھا : *کہ وہ دوزخ سے آزاد ہے* وہ شخص اس پرچہ سے بے پناہ خوش ہوا،اوراس پرچہ کودیکھنے کے لئے لوگوں کی بھیڑ لگ گئی۔
اس پرچہ کے منجانب اللہ ہونے کی علامت یہ تھی کہ وہ ہرطرف سے برابرویکساں پڑھاجاتاتھا۔پرچہ کے پلٹنے سے اس کی تحریر بھی پلٹ کراسی جانب سے ہو جاتی جس طرف سے دیکھنے والادیکھتا۔اس علامت سے لوگوں کو یقین آگیا کہ یہ پرچہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔"
(انباء الحی ان کلامہ المصوّن تبیان لکُلّ شیٔ،للامام احمدرضا علیہ الرحمہ،ص:170.171،
رضوی کتاب گھردہلی،2010)

*ترسیل:*
محمد اسلم رضا قادری اشفاقی
رکن سنی ایجوکیشنل ٹرسٹ
باسنی ناگور شریف۔
٨ذی الحجہ ١٤٤١ھ
30جولائ 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے