Header Ads

سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ

📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚
---------------------------------
🕯سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسمِ گرامی: اورنگ زیب عالمگیر۔
کنیت: ابو المظفر۔
لقب: محی الدین، سلطان المعظم، سلطان الہند۔
پورا نام: سلطان المعظم ابوالمظفر محی الملۃ والدین محمد اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے: سلطان اورنگ زیب عالمگیر، بن سلطان شاہ جہاں، بن نورالدین جہانگیر۔

تاریخِ ولادت: بروز ہفتہ، 15 ذیقعدہ/1027ھ، بمطابق 24/اکتوبر 1618ء کو "مالوہ" اور گجرات کی آخری سرحد پر "دوحد" کے مقام پر پیدا ہوئے۔

تحصیلِ علم: آپ علیہ الرحمہ سلاطینِ مغلیہ میں سے واحد شخصیت ہیں، جو حافظِ قرآن تھے۔ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کو اپنے وقت کے جید مشائخ اور اساتذہ کی صحبت کا موقع ملا جن میں شیخ ِجلیل شیخ محمد معصوم سرہندی بن مجد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی، اور شیخ احمد معروف بہ ملاجیون (صاحبِ تفسیراتِ احمدیہ) ان کے علاوہ میر محمد ہاشم گیلانی، ملا موہن بہاری، علامۂ زمان سعد اللہ وزیرِ اعظم شاہجہاں بادشاہ، مولانا سید محمد قنوجی، دانشمند خان (علیہم الرحمہ)۔ 3/ذوالحج 1045ھ کو 18 سال ؛10 دن کی عمر میں تمام علومِ مکتسبہ و فنونِ متعارفہ، عربی، فارسی، ترکی اور ہندی زبانوں میں پوری مہارت حاصل کی۔ عربی اور فارسی خط (نسخ و نستعلیق) میں کمال حاصل کیا۔ علومِ دینیہ تفسیر، حدیث، فقہِ حنفیہ، عقائدِ اصلیہ و مسائلِ فرعیہ، کتبِ طریقت مثلاً: احیاء العلوم، کیمیاء سعادت، کشف المحجوب اور کثیر کتب کا مطالعہ بچپن میں کر لیا تھا۔اس کے ساتھ فنونِ حربیہ، ملکی آئین، طریقِ جہانبانی و دستورِ فرمانروائی کا وہ بہترین سلیقہ اس قلیل عمر میں مکمل کرلیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمگیر کے زمانے میں درس و تدریس کو جو ترقی ملی ایسا کسی عہد میں نہیں ہوا۔ حفظِ قرآنِ مجید کی سعادت 43 سال کی عمر میں ہوئی۔

بیعت و خلافت: شیخ سیف الدین نبیرہ حضرت مجدد الفِ ثانی، اور خواجہ محمد سعید خلف الرشید حضرت مجدد الفِ ثانی نے روحانی تربیت فرمائی، اور حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی بن مجدد الفِ ثانی کے ذریعے تکمیل ہوئی۔(علیہم الرحمۃ رحمۃ ًواسعۃً)۔ حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی نے آپ کے بارے میں فرمایا: میں نے بادشاہ (عالمگیر) کے معاملات میں نظر کی ہے۔ ان کا ظاہر تو امورِ سلطنت میں مصروف ہے، مگر انکا باطن اللہ جل جلالہ کے ذکر میں مصروف ہے۔ 

سیرت و خصائص: سلطان المعظم، حامیِ سنت، ماحیِ بدعت، دین پرور، محی الملۃ والدین، حامیِ شرع متین، صاحبِ اوصافِ کثیرہ محی الدین ابوالمظفر سلطان محمد اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ کی دین پروری، دینداری، تقویٰ و پرہیزگاری، علم و فضل، عدل و مساوات، علم دوستی، "خدمتِ دین اور عظیم کارناموں کی وجہ سے بارہویں صدی کا مجدد کہا جاتاہے"۔ اتنی وسیع سلطنت کے سلطان ہونے کے باوجود آپ نے کبھی بھی عبادت و ریاضت میں کمی نہیں آنے دی۔آپ ہر وقت باوضو رہتے تھے۔کلمہ طیبہ اور ادعیہ ماثورہ درود شریف اور ذکراللہ سے زبان تر رہتی تھی۔ نماز صفِ اول میں باجماعت ادا کرتے تھے۔ تمام سنن و نوافل اور مستحبات خشوع و خضوع کیساتھ ادا کرتے تھے۔ شب زندہ دار تھے۔سال کے اکثر حصے میں روزے سے رہتے تھے۔ 
ڈاکٹر برنیز نے 1665 میں آپ کو دیکھا تھا۔ وہ لکھتا ہے:
"اس کی زندگی بالکل سادی اور زاہدانہ تھی۔ اس کا جسم نحیف ہوگیا تھا، اور اس لاغری و کمزوری میں اس کی روزہ داری نے اور اضافہ کردیا تھا"۔ نمازِ جمعہ و عیدین عام مسلمانوں کیساتھ بغیر کسی شاہی پروٹوکول کے ادا کرتے تھے۔ اہل اللہ کی صحبت کو پسند کرتے تھے۔ رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ میں معتکف رہتے تھے۔

آپ نے امورِ سلطنت سنبھالتے ہی ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں، اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال، نجومی، شاعر موقوف کر دئیے گئے۔ شراب، افیون اور بھنگ بند کردی۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی، اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہر قسم کے محصول ہٹا دیے۔ آپ کے دورِ حکومت میں حکمرانوں اور عمالوں کی نگہبانی کا بہترین نظام تھا۔ قومی خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتے تھے۔ نظامِ سلطنت چلانے کیلیے ایک مجموعہ فتاوٰی تصنیف کیا گیا جسے "فتاوی عالمگیری" کہا جاتا ہے۔ 
فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ آپ کے زمانے میں علم بیچا نہیں جاتا تھا، تعلیم جیسے مقدس شعبے کی تجارت نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ ہر شہر اور ہر قصبے میں سرکاری مدارس کی بنیاد رکھی جہاں ہر قسم کی تعلیم فری ہوتی اور اس کے ساتھ علماء و طلباء کو وظائف اور روزینے مقرر تھے۔ جس کی وجہ سے مطمئن ہو کر تعلیم و تعلم میں مشغول رہتے تھے۔

آپ نے تجہیز و تکفین سے متعلق یہ وصیت فرمائی تھی:
"چار روپیہ، دو آنے جو ٹوپیوں کی سلائی سے حاصل ہوئے، ان سے میری تجہیز و تکفین ہو۔ تین سو پانچ روپے قرآن نویسی کی اجرت کے محفوظ ہیں، وفات کے دن مساکین میں تقسیم کر دئیے جائیں"۔ (آپ کے تحریر کردہ قرآن ِمجید کے چھ نسخے اور ایک پنج سورہ مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ آپ جس کلامِ مجید میں تلاوت کرتے تھے، وہ اس وقت کولمبیا یونیورسٹی (امریکہ) کے قبضے میں ہے)
(علماء ہند کا شاندار ماضی:557)

*وصال:* بروز جمعۃ المبارک،28/ذیقعدہ 1118ھ، بمطابق 20/فروری 1707ء ،بوقتِ صبح،90 سال کی عمر میں کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے واصل بحق ہوئے۔ خلدآباد، ضلع اورنگ آباد، صوبہ مہاراشٹر (انڈیا) احاطہ درگاہ حضرت زین الدین علیہ الرحمہ میں مدفون ہیں۔

*ماخذ و مراجع:* علماء ہند کا شاندار ماضی۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. انٹر نیٹ پر جو مواد ہے اس میں یہ معلومات نہیں ملتیں یعنی ہمارے بزرگ
    " میر سید امان اللہ حسینی رح کا تحریر کردہ ہے جو اورنگ زیب عالمگیر کے دور کے بزرگ ہیں) کے مطابق ھانسی کا قلعہ کے فاتح میر سید ابراھیم رح بن میر سید کمال الدین ترمزی رح ہیں۔ جو کہ میر نشانچی کے لقب سے مشہور ہیں ھانسی میں ان کا مزار مشہور و معروف ہے۔البتہ ان کے ہمراہ ایک بزرگ نعمت اللہ ولی رح کا نام اس تحریر میں موجود ہے کہ وہ میر سید ابراھیم ترمزی رح کے ھمراہ تھے۔۔اب تحقیق طلب بات یہ ہے کہ آیا یہ نعمت اللہ ولی رح نقوی بزرگ ہیں یا یہ شاہ نعمت اللہ ولی کرمانی رح ہیں جن کی پیشنگوئیاں مشہور ہیں۔۔" آپ یہ معلومات تصدیق کے بعد درج کیجئے۔

    جواب دیںحذف کریں

اپنا کمینٹ یہاں لکھیں