دہلی فساد:فروری 2020

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ

دہلی فساد:فروری 2020

 نہ سمجھوگے تومٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانو! 
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
 
اہل عالم کو یہ سن کر تعجب ہوتا ہے کہ دہلی فساد:فروری 2020میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ان کی دوکانیں لوٹی گئیں۔ان کے مکانات مسمار کیے گئے،پھر جیل بھی انہیں کوجانا پڑا۔پولیس نے مسلمانوں کے خلاف ہی رپور ٹ تیارکی۔

 دراصل بھارت کی یہ پرانی وراثت ہے۔فسادات کے موقع پر پولیس اورحکومت فرقہ پرست بن جاتی ہے۔

آزادی ہندکے وقت1947 میں بھی دہلی کے مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔انہیں اپنا گھر بار چھوڑ کر ادھر ادھر بھاگنا پڑا،اور الزام بھی مسلمانوں پر ہی آیا۔

گاندھی جی نے بھی اہل حکومت کے ذریعہ حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی،لیکن سخت ناکامی ہوئی۔

ملک کے مضبوط پرائم منسٹر جواہر لال نہروکوبھی افسوس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔آخرکار گاندھی جی نے برت رکھی اور ماحول کچھ کنٹرول ہوا۔یہ ہے آزاد بھارت میں مسلمانوں کا مقدر!

سابق کانگریسی صدر ومجاہدآزادی مسٹر ابوالکلام آزاد نے لکھا:”سردار پٹیل ممبرداخلہ تھے،اور اس طرح دہلی انتظامیہ براہ راست ان کے تحت تھا۔جیسے ہی قتل اور لوٹ مار کی وارداتوں کی فہرست طویل تر ہوئی،گاندھی جی نے پٹیل کوبلوایا اوران سے پوچھا کہ اس خون ریزی کوروکنے کے لیے وہ کیا کررہے ہیں؟ سردار پٹیل نے یہ کہتے ہوئے انھیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ گاندھی جی کوملنے والی خبریں نہایت مبالغہ آمیز ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے اس حدتک کہا کہ مسلمانوں کوشکایت کرنے یا ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

مجھے ایک موقع اچھی طرح یاد ہے،جب ہم تینوں گاندھی جی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔جواہر لال نے گہری افسردگی کے ساتھ کہا کہ دہلی کی صورت حال کو،جس میں مسلمان کتوں اوربلیوں کی طرح مارے جارہے تھے،وہ برداشت نہیں کرسکتے۔انہیں اپنے آپ پر شرم آتی تھی کہ وہ بے بس تھے اور انہیں بچا نہیں سکتے تھے۔ان کا ضمیر انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دے گا،کیوں کہ جب لوگ ان ہولناک واقعات کے بارے میں شکایت کرتے تھے توان سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا تھا۔

جواہر لال نے کئی بار دہرایا کہ صورت حال ان کے لیے ناقابل برداشت تھی اور ان کا ضمیر انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔

سردار پٹیل کے رد عمل نے ہمیں مکمل طورپر حیرت زدہ کردیا۔ایک ایسے وقت میں جب دہلی میں مسلمان دن دہاڑے قتل کیے جارہے تھے۔انھوں نے نہایت اطمینان سے گاندھی جی کوبتایا کہ جواہرلال کی شکایتیں ان کے لیے یکسر ناقابل فہم ہیں۔ہوسکتا ہے کہ کچھ اکا دکا واقعات ہوئے ہوں،لیکن حکومت مسلمانوں کی جان اور مال بچانے کے لیے حتی الامکان ہرکوشش کررہی تھی،اور اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

دراصل انھوں نے اپنی بے اطمینانی کا اظہاربھی کیا کہ وزیراعظم کے طورپرجواہر لال اپنی ہی حکومت کے کاموں پرناپسندیدگی ظاہر کررہے ہیں۔

چند لمحوں تک جواہر لال کچھ بھی نہیں کہہ سکے،پھر انہوں نے مایوسی کے ساتھ گاندھی جی کی طرف دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر سردار پٹیل کے خیالات یہی ہیں تو انہیں کچھ نہیں کہنا ہے۔

ایک اورواقعے نے،جوتقریباً اسی وقت ہوا،صاف ظاہر کردیا کہ سردار پٹیل کا ذہن کس طرح کام کررہاتھا۔ شایدانھوں نے یہ سوچا کہ مسلمانوں پر ہرروز جوحملے ہورہے ہیں،ان کا کوئی جواز ضروری ہے۔

چناں چہ انہوں نے ایک نظریہ پیش کیا کہ شہر کے مسلمان علاقوں سے مہلک اسلحے برآمد کیے گئے تھے۔ان کا مطلب یہ تھا کہ دہلی کے مسلمانوں نے ہندوؤں اورسکھوں پر حملہ کرنے کے لیے اسلحے جمع کیے تھے،اور اگر ہندوؤں اور سکھوں نے جارحیت میں پہل نہ کی ہوتی تومسلمانوں نے انھیں برباد کردیا ہوتا۔

قرول باغ اور سبزی منڈی سے پولیس نے کچھ اسلحے برآمد کیے۔سردارپٹیل کے حکم سے انھیں گورنمنٹ ہاؤس لایا گیا اور ہمارے معاینے کے لیے کیبنٹ روم کے اینٹی چیمبر میں رکھ دیا گیا۔جب ہم اپنی روز کی مٹنگ کے لیے یکجا ہوئے،سردار پٹیل نے کہا کہ پہلے ہم اینٹی چیمبر میں جائیں،اور برآمد کردہ اسلحہ دیکھ لیں۔

ہم وہاں پہنچے توکیا دیکھتے ہیں کہ میز پر باورچی خانے میں کام آنے والے درجنوں چاقو جن میں زنگ لگا ہوا تھا،جیب میں رکھنے والے اور قلم یا پنسل تراشنے والے چاقو،جن سے بعض دستوں کے ساتھ تھے،بعض بغیر دستوں کے،اور لوہے کی کچھ سلاخیں جو پرانے مکانات کے جنگلوں سے نکالی گئی تھیں،اور کچھ ڈھلے ہوئے فولاد کے واٹر پائپ رکھے ہوئے تھے۔

سردار پٹیل کے قول کے مطابق یہی وہ اسلحے تھے جو دہلی کے مسلمانوں نے ہندوؤں اور سکھوں کو نیست ونابود کرنے کے لیے جمع کیے تھے۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک یا دو چاقو اٹھائے اور مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ سامان اکٹھا کیا تھا،وہ جنگی داؤپیچ کا ایک حیرت انگیز تصور رکھتے ہوں گے،اگر وہ یہ سوچتے ہیں کہ شہر دہلی پر انہی اسلحوں کی مدد سے قبضہ کیا جا سکتا ہے“۔
(انڈیا ونس فریڈم:(مترجم)ص283,282-مکتبہ جمال لاہور)

بھارت کا پہلاوزیر داخلہ ملک کی آزادی کے چنددنوں بعد ہی مسلمانوں کے بارے میں ایسا بے مثال نظریہ پیش کررہا ہے تو بہتر (72)سال بعدکے دہلی فساد کا منظر تو مزید خراب ہی ہوگا۔

بس اللہ ہی مسلمانوں کا حافظ وناصر ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طاعت وعبادت میں لگے رہیں اورایسے لوگوں کی آبادی میں نہ جابسیں جو عام حالات میں دوست ہوں اورمصیبت کے وقت دشمن بن جائیں۔

اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل وشعور کی دولت سے سرفراز فرمایا ہے۔ اپنی عقل وخرد کو استعمال کریں اور خردماغ بن کر ہرکس وناکس پر اعتمادکلی نہ کربیٹھیں۔اپنی حفاظت کا سامان خودکریں۔

مکہ معظمہ میں جب مسلمانوں پر ظلم وستم کی کثرت ہونے لگی تو نہ صرف مسلمانوں کو ہجرت کا حکم ہوا،بلکہ خود پیغمبر اسلام حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوبھی اپنا پیارا وطن ترک کرنے کا حکم ہوا،جہاں کعبہ مقدسہ بھی تھا۔

بھارتی مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے آس پاس کثیر مسلم آبادیوں کی طرف منتقل ہوجائیں اور سانپ کے بل کے پاس نہ بیٹھے رہیں۔سانپ نکلے گا تو ڈس لے گا۔ 

طارق انور مصباحی
 
 جاری کردہ:26:ستمبر 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے