Header Ads

ہمارا سیاسی نظریہ. ‏از ‏قلم ‏طارق ‏انور ‏مصباحي ‏

مبسملا و حامدا ومصلیا و مسلما

ہمارا سیاسی نظریہ 

ہمارے دیگر مضامین کی طرح سیاسی مضامین بھی سوشل میڈیا پر گشت لگاتے رہتے ہیں،لیکن یہ بات واضح رہے کہ میں اپنے سیاسی مضامین میں اپنے سیاسی نظریات سپرد قوم کرتا ہوں۔وہ قوم کے لئے محض ایک مشورہ نہیں۔

مجھے یہ بھی بخوبی معلوم ہے کہ علما اور مسلم دانشوران میں بہت کم لوگ میرے سیاسی نظریات سے اتفاق کریں گے۔
ہماری نظر میں اس کا سبب اول یہ ہے کہ وہ تمام احوال و خدشات کا احاطہ کئے بغیر کچھ بول جاتے ہیں اور دوسرا سبب یہ بھی ہے کہ بعض کے کچھ ذاتی مفادات کسی نظریہ سے وابستہ ہوتے ہیں۔خواہ سبب کچھ بھی ہو،لیکن نظریاتی سطح پر مجھے مقابلہ ارائی کرنی ہو گی اور جب سمندر پار ارباب علم و دانش کی کثرت ہے تو مجھے مستحکم حکمت عملی کے ساتھ پیش قدمی کرنی ہو گی۔

مجھے ان دانشوروں کو بھی جواب دینا ہے جو قوم کو محض اعلی تعلیم کی ترغیب دیتے ہیں اور سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔

مجھے دو طرفہ مقابلہ کرنا ہے اور اسلام و مسلمین کے تحفظ کے لئے ایسی خاکہ گری کرنی ہے کہ خواص کو قبول ہو، یا نہ ہو،لیکن عوام کے ذہن نشیں ہو جائے۔

مسلمانو! یاد رکھو کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔جمہوری ملک میں ساری طاقت و قوت اسمبلی و پارلیامنٹ کے پاس ہوتی ہے۔عوام کے منتخب نمائندگان کا وہ طبقہ حکومت سازی کرتا ہے،جس کے پاس اکثریت ہو۔

تعلیم یقینا بہت ضروری چیز ہے،جس کے ذریعہ اپ کو اعلی حکومتی ملازمتیں حاصل ہو جائیں گی،لیکن تمام سرکاری ملازمین حکومتی نوکر ہوتے ہیں،اور مرکزی یا ریاستی حکومت کے زیر حکم ہوتے ہیں۔خواہ وہ چیف جسٹس اف انڈیا ہو،یا ملکی افواج کے چیف کمانڈر۔حد تو یہ ہے کہ ملک کا صدر جمہوریہ اور ریاستوں کے گورنر بھی عملی طور پر مرکزی حکومت کے تابع ہوتے ہیں،گرچہ قانون میں ہر ایک کے اختیارات مرقوم ہوں۔

حکومتی ملازم اپنے سیاسی اقاوں کو خوش کرنے کے لئے اپنی قوم کو قربان کر دیتے ہیں۔مسلم اور غیر مسلم دونوں مذہب کے نوکر شاہوں کا یہی حال ہے۔

بسا اوقات مسلم افسر مسلمانوں کو غیر مسلم افسروں سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔اس کو اپنی ترقی مطلوب ہوتی ہے،نہ کہ قوم کا تحفظ و بقا۔ایسے مسلم نوکرشاہوں سے کیا فائدہ؟

گجرات فساد2002 میں بعض مسلم پولیس افسروں کی حکومت نوازی کے سبب بہت سے مسلمان لقمہ اجل بن گئے۔یہ لوگ اس مشکل مرحلہ میں سیکولر بن جاتے ہیں،یعنی اسلام اور مسلمانوں کے دشمن۔
سب ایسے نہیں ہوتے،لیکن بہت سے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔

سیاسی محاذ پر ہمارا نظریہ بالکل واضح ہے کہ ہم بہوجن سماج کی سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔اس میں تمام مول نواسی اقوام (غیر ارین اقوام)شامل ہیں۔قوم مسلم کو بھی بہوجن سماج کا ایک طبقہ شمار کیا جاتا ہے۔

بہوجن سماج کی سیاست کے استحکام کے لئے بام سیف BAMCEF اور اس کے ساتھ متعدد ذیلی تحریکیں کوشش کر رہی ہیں،گرچہ مسلمانوں میں ابھی بیداری نہیں ائی ہے،لیکن میں نے کئی سالوں قبل سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔تعمیراتی مراحل میں کچھ وقت لگے گا۔

بہوجن سماج کی سیاست میں خواہ لیڈر کوئی مسلم ہو،یا کوئی غیر مسلم۔اس میں ہر قوم کو ابادی کے تناسب سے تمام شعبہ جات میں حصہ داری کا نظریہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

اگر بہوجن سیاست میں کوئی مسلم لیڈر مرکزی پوسٹ پر ہو تو خطرہ ہے کہ ارین اقوام کی طرف سے اس کو ہلاک کر دیا جائے۔

یہ بھی خطرہ ہے کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کسی چیز کو بنیاد بنا کر سخت اختلاف پیدا کر دیا جائے۔

اگر ہم ضد کرتے ہیں کہ بہوجن سماجی سیاست کا اول لیڈر مسلم ہی ہو تو اس میں کوئی قومی فائدہ نہیں۔گرچہ ایک صاحب پارٹی کا صدر ہو جائے۔

میری نظر میں قومی مفاد غالب ہے۔شخصی مفاد اور کسی ایک فرد کی ترقی کے لئے نہ مجھے علما سے فکری مخالفت مول لینی ہے،نہ ہی دانشوروں سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

 برہمنوں نے سارے بھارتیوں کو جس طریقے سے فریب دیا ہے،ہم یقینا اس کو پسند نہیں کرتے۔

برہمنی سیاست یہ ہے کہ جس قوم کو تباہ کرنا ہوتا ہے،اس کے کسی فرد کو صدر جمہوریہ یا پرائم منسٹر بنا دیا جاتا ہے اور اس کی قوم کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔
جب پنجاب میں سکھوں پر حملے ہو رہے تھے اور ان کو تباہ کیا جا رہا تھا تو ملک کا صدر جمہوریہ ایک پنجابی سکھ تھا۔

اسی طرح جب کسی قوم کو تباہ کیا جاتا ہے تو برہمنی سیاست میں اس قوم کے لئے کوئی ایسا قانون پاس کر دیا جاتا ہے،جس میں اس قوم کی بھلائی کی پلاننگ ہوتی ہے اور زمینی سطح پر اس کے بر عکس کام ہوتا ہے۔یہ سب فریب کاری ہے۔جو عام لوگوں کی سمجھ سے ماورا ہے۔

مجھے قوم مسلم کے عام افراد میں سے ہر ایک کو اس کا حق چاہئے۔قوم مسلم کے کسی فرد کے لئے وزارت عظمی اور ملکی صدارت نہیں چاہئے۔وزارت عظمی اور صدارت سے صرف ایک فرد کی ترقی ہوگی۔ساری قوم تو بدحال رہ جائے گی۔ 

اگر قوم مسلم کے ہر ایک فرد کو اس کے حقوق ملتے ہیں اور مسلم لیڈر کو نائب وزیر اعظم اور نائب صدر جمہوریہ بنایا جاتا ہے تو یہ ٹھیک ہے۔
اگر ہماری قوم کو تباہ کر دیا جائے اور قوم مسلم کے کسی فرد کو وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ بنا دیا جائے تو یہ فرد کی ترقی اور قوم کی تباہی ہے۔یہ مجھے منظور نہیں۔امید کہ قوم مسلم بھی ہمارے نظریہ کو سمجھ رہی ہو گی۔

بہوجن سماج کی سیاست میں قوم مسلم کے ہر ایک فرد کو اس کا حق ملنے کی امید ہے،لیکن پارٹی سطح پر صدارت نہیں،بلکہ نیابت ملے گی۔
وہاں ابادی کے تناسب سے حصہ داری کی بات ہے اور یقینا بہوجن سماج میں ایس سی،ایس تی اور اوبی سی کی تعداد زیادہ ہے تو ہم حکومتی عہدوں میں نیابت کے حق دار ہوں گے،لیکن عوامی سطح پر ہر ایک فرد کے حقوق کی بات ہے تو وہ ہر ایک فرد کو ملنا چاہئے۔

ایک نظریہ مسلم سیاست کا ہے۔اس لفظ میں جاذبیت اور کشش ہے،لیکن یہ ناکام و نامراد سیاست ہے اور ضلالت و گمرہی کا انڈیا گیٹ ہے۔
(الف)مسلم سیاست برہمنی سیاست کو قوت و استحکام فراہم کرتی ہے۔مسلم سیاست کے سبب بہوجن سماج کی سیاست پر ضرب پڑے گی اور مسلم اور مول نواسی قوموں میں اتحاد نہیں ہو گا تو برہمنی پارٹیاں کچھ مسلمان اور کچھ مول نواسی اقوام کے ووٹ سے فتح پاتی رہیں گی اور مسلمان و مول نواسی اقوام کو اپنا غلام بنائے رکھے گی۔ازادی کے بعد سے اج تک یہی ہو رہا ہے۔

(ب) برہمنی فکر مسلمانوں اور مول نواسی اقوام کو اپس میں لڑاتی رہے گی اور مول نواسی اقوام کو ہندو بتا کر اپنے چنگل میں رکھے گی۔ان کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل عام،ان کی جائیداد و املاک کی تباہی،ہماری بہن بیٹیوں کی عصمت دری کراتی رہے گی۔سلطنت مغلیہ کے خاتمہ کے بعد سے اج تک یہی حال ہے۔

(ج)مسلم سیاست کا دائرہ مسلمانوں تک محدود ہو گا۔ممکن ہے کہ مول نواسی اقوام کے کچھ افراد بھی اپ کے ساتھ اجائیں۔اس کے باوجود ہر ریاست میں اپ کے چند ایم ایل اے اور پارلیامنٹ کے چند ممبر ہو سکتے ہیں۔ان چند ممبران سے اپ حکومت سازی نہیں کر سکتے۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلم لیڈر بھی اپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے،کیوں کہ نہ ان کو منسٹری ملے گی،نہ ہی وہ حکومتی پارٹی میں شریک ہوں گے کہ دیگر فوائد حاصل کر سکیں۔

(د)جب اپ حکومت میں نہیں ہوں گے تو اسمبلی و پارلیامنٹ میں مسلمانوں کی تباہی پر صرف مرثیہ پڑھ سکتے ہیں اور اہ و زاری کر سکتے ہیں۔
اج بھی متعدد مسلم سیاسی پارٹیاں ہیں،لیکن وہ حکمراں نہیں تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتیں۔
اگر اپ کسی حکمراں پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں تو بھی قلت تعداد کے سبب اپ کو اس پارٹی سے بھیک مانگنی ہو گی۔

ممکن ہے کہ اپ کے کشکول میں کچھ ڈال دیا جائے اور ممکن ہے کہ معذرت خواہی کر لی جائے۔

(ہ)مسلم سیاست کا تصور ابھرتے ہی تمام کلمہ گو طبقات کے اتحاد کی بات ہونے لگتی ہے،بلکہ اس اتحاد کے بغیر مسلم سیاست کا تصور ہی نہیں۔
جیسے ہی بدمذہبوں سے اتحاد ہو گا تو عوام سب کو مومن سمجھ کر ایک دوسرے کے قریب ائیں گے،پھر تحریک ندوہ کا جو حال ہوا تھا،وہی ہو گا کہ لوگ کافر و مرتد کو بھی مومن اور گمرہوں کو بھی مومن سمجھنے لگیں گے اور اسلامی احکام کی غلط تاویل و تشریح کی جائے گی،یعنی جو کچھ اہل ندوہ نے کیا تھا۔وہی سب کچھ دہرایا جانے لگے گا۔یاد رہے کہ تحریک ندوہ کا مقصد بھی سیاسی و سماجی اتحاد تھا۔بعد میں وہ وحدت مسالک یا حقانیت کل مسالک کی صورت اختیار کر گیا۔ 

پاکستان میں قادیانیت کے دفاع کے لئے سنی اور دیوبندی سیاسی پلیٹ فارم پر متحد ہو گئے تھے،پھر رفتہ رفتہ باہمی شادی بیاہ اور دیگر روابط شروع ہو گئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ اج پاکستان میں مذبذبین کی ایک مستقل جماعت پیدا ہو چکی ہے۔یہ لوگ مسلک دیوبند کے اشخاص اربعہ کی تکفیر کے منکر ہیں اور طرح طرح کی تاویل کرتے ہیں۔
ان مذبذبین میں بہت سے وہ ہیں کہ باپ سنی ہے تو ماں دیوبندی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دیوبندی جماعت سے اپ سیاسی اتحاد بھی کرنے جائیں تو وہ لوگ سب سے پہلے اشخاص اربعہ سے حکم کفر اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
خاص کر علمائے کرام سے عرض ہے کہ مرتدین سے کسی بھی مرحلے میں اتحاد کی اجازت نہیں،یہاں تک کہ خرید و فروخت بھی جائز نہیں تو پھر اپ کے ذہن شریف میں کون سا جزئیہ ہے کہ جس کے سبب مرتدین اور گمرہوں سے سیاسی اتحاد کو جائز سمجھ رہے ہیں۔

جو فعل ناجائز ہو،یقینا اس میں کوئی برکت نہیں ہو گی۔

سیاسی محاذ پر مشرکین سے اتحاد جائز ہے۔صلح حدیبیہ کے موقع پر بعض مشرک قبائل کو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنا حلیف بنایا تھا۔

واضح رہے کہ بہوجن سیاست کے لئے ابھی کوئی منظم پارٹی نہیں۔بام سیف اس کے لئے ماحول سازی کر رہی ہے۔بھیم ارمی کے چیف چندر شیکھر ازاد نے ازاد سماج پارٹی کی تشکیل بہوجن سماجی سیاست کو فروغ دینے کیا ہے،لیکن مسلمانوں کو گھر بیٹھے حصہ داری نہیں مل سکتی۔اس پارٹی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر رہنا ہو گا۔

کانشی رام نے بہوجن سماج پارٹی کی تشکیل اسی مقصد سے کی تھی،لیکن برہمنوں نے مایاوتی کو راستہ بھٹکا دیا۔

فی الوقت جو مسلمان کسی مسلم سیاسی پارٹی سے منسلک ہیں،وہ اسی کے ساتھ رہیں اور تجربات حاصل کریں۔

طارق انور مصباحی

جاری کردہ؛
یکم ستمبر 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے