Header Ads

آؤ اپنی اصلاح کریں قسط دوم ‏از ‏قلم ‏؛ طارق ‏انور ‏مصباحي ‏

مبسملا و حامدا::ومصلیا و مسلما

آؤ اپنی اصلاح کریں

قسط دوم

عدم تحمل؛
عدم تحمل اسلامی نظریہ اخوت کے متصادم ہے اور عقد مواخات کے صریح متناقص ہے۔

جب ہجرت کے بعد حضور اقدس سرور دو جہاں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرات صحابہ انصار و مہاجرین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے درمیان عقد مواخات قائم فرمایا تو حضرات صحابہ انصار رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین نے ایسی فراخ دلی دکھائی کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

اگر کسی انصاری صحابی کے پاس دو بیویاں تھیں تو اپنی ایک بیوی کو طلاق دے کر اسے اپنے مہاجر بھائی کے عقد نکاح میں دینے کی پیش کش کی۔

بعض نے اپنی جائیداد کا نصف حصہ اپنے مہاجر بھائی کو دینے کا ارادہ کیا۔
 عقد مواخات کے حیرت انگیز واقعات،خیر خواہی کے وسیع جذبات،اخوت اسلامی کے پاکیزہ احساسات اور تعاون باہمی کے پر کشش حکایات سے اسلامی تاریخ لبریز نظر اتی ہے۔ 

حالیہ تیس سالوں میں یعنی 1990 کے بعد ہمارا یعنی جماعت علما کا اخلاقی معیار اور حسن کردار برق رفتاری کے ساتھ زوال پذیر ہوتا گیا۔

عدم تحمل اس منزل میں ا چکا ہے کہ کم ازکم دس فی صد علما ضرور اس وبائی مرض کے شکار ہیں۔

ہم کسی عالم کو ترقی کرتا دیکھنا نہیں چاہتے۔اگر اس کی ترقی و خوش حالی میں ہمارا کردار لازمی حیثیت رکھتا ہو تو ہم اسے ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں،کیوں کہ ہمیں اس کی بھلائی منظور نہیں۔

اگر اپنی ذاتی کاوشوں کے سبب اس کی زندگی نعمتوں سے سج دھج گئی تو ہمارے سینوں پر ناگ سانپ لوٹنے لگتا ہے۔یہی عدم تحمل ہے۔

اب ہم اپنے سینے کی اگ کو ٹھنڈی کرنے کے لئے اس کی بد گوئی،عیب جوئی،بد خواہی،اور اس کے بغض و حسد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ابھی تک تو یہیں تک معاملہ پہنچا ہے۔اگر اس بد فکری اور کج عقلی کی تذلیل و تحقیر اور ایسی فاسد فکروں کو سر عام رسوا نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں کہ کوئی،کسی دوسرے کی ترقی و خوش حالی،عزت و قبولیت اور اس کے اوپر نعمت خداوندی کی بارش دیکھ کر قوت برداشت کھو بیٹھے اور جب اپنی محرومی کا احساس شدید و ناقابل برداشت ہو جائے تو وہ پھانسی کے پھندے کو چوم لے اور چند لمحوں بعد یہ خبر گشت کرنے لگے کہ حضور عالی کسی سبب سے ماوف العقل ہو گئے اور اپنی جان جان افریں کے سپرد فرما گئے۔

دراصل ایسے شیطانی نظریات اور ابلیسی خیالات واجب القتل ہیں۔ان امور قبیحہ اور افعال شنیعہ کی قباحت و شناعت بیان کی جائے،تاکہ اصحاب جبہ و دستار ان مہلک امراض میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں اور قوم کو بھی محفوظ رکھیں۔

واضح رہے کہ ان افعال شنیعہ میں ہر غیر معصوم مبتلا ہو سکتا ہے،گرچہ وہ بہت مقرب بندہ کیوں نہ ہو۔ہمیں ابلیس کی تاریخ بھی معلوم ہے اور بلعم باعور کا واقعہ بھی۔

جب غیر معصوم مقربین کفر و ارتداد میں مبتلا ہو سکتے ہیں تو کسی ناجائز یا حرام امر میں کیوں نہیں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

اگر کوئی پیر یا عالم کسی ناجائز امر میں مبتلا ہے تو وہ ناجائز امر جائز نہیں ہو گا،بلکہ ناجائز ہی رہے گا۔پس غلط امر میں کسی پیر یا عالم کی طاعت نہ کی جائے۔

لا طاعہ فی معصیہ الخالق

طارق انور مصباحی

جاری کردہ؛
02:ستمبر 2020


آؤ اپنی اصلاح کریں قسط سوم کے لیے یہاں کلک کریں 👇 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے