ابوالحقانی {١٩٥٦ء ـ ٢٠٢٠ء}
روایتی جلسوں میں منفرد حدیثی طرزِ بیان کا موجِد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر : فیضان سرور مصباحی
بدھول، اورنگ آباد {بہار}
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شعور کی آنکھ کھلتے ہی ""ابوالحقانی"" صاحب کا نام سن رکھا تھا۔ جلسوں کے شوقین احباب آپ کا نام بڑے مزے سے لیاکرتے تھے ۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ پہلے عربی سند ومتن کے ساتھ مترنم آواز میں احادیث کریمہ کی تلاوت کرتے ہیں، پھر تشریحات کے بعد اشعار رضا کے انطباق پر گفتگو تمام ہوتی ہے ۔ شاید یہ حدیث سے میری قدرتی دلچسپی کا نتیجہ تھا کہ بچپن میں دوسرے مقررین کی بہ نسبت آپ کا خطاب سننے کا زیادہ اشتیاق لگا رہتا تھا ۔
پہلی بار الجامعۃ الحمیدیہ شکرتالاب کے قریب ایک جلسے میں آپ کا خطاب نایاب سننے کا اتفاق ہوا ۔ آپ کے بارے میں جتنا کچھ سن رکھا تھا اس سے سوا پایا، جامعہ فاروقیہ، ریوڑی تالاب (بنارس) سے پیدل چل کر راتوں رات شکرتالاب (بنارس) پہنچنے کی محنت گویا وصول ہوگئی تھی ۔
آپ نے اپنے منفرد حدیثی طرزِ بیان کے ذریعے خطابت کو ایک نئے انداز سے متعارف کروایا تھا۔ جس کا نمایاں اثر یہ دیکھنے کو ملا کہ جلسوں میں بھی تسلسل کے ساتھ احادیث نبویہ کے اسناد و متون سننے سنانے کا مزاج بننے لگا۔ جب کہ اب تک یہ انداز مدارس کی چہار دیواری تک محدود تھا۔ عوامی محفلوں اور جلسوں میں حدیث بیانی کا ایسا خاص رنگ جس میں اہل اسٹیج اور عوام دونوں باہم مربوط رہیں، اور ذوق وشوق سے سردھنتے رہیں ؛ پہلے کم دیکھنے کو ملتا تھا۔ آپ کے بعد دیگر روایتی خطباء نے بھی آپ کے اسلوب بیان کی پیروی کی، خاص انداز میں پوری نقل کی کوششیں شروع ہوئیں، مگر بالآخر وہ لطف پیدا نہ ہوسکا۔ جس سے آپ نوازے گئے تھے ۔
آپ کا عاشقانہ اسلوب بیان، موضوع سے موافق آسان احادیث کا انتخاب، ان کی آسان تر تشریحات جو احادیث کریمہ کے مفاہیم کو عوام کے فہم سے قریب کردے، پھر ان میں جابجا حدیث کے موافق برجستگی کے ساتھ اشعار رضا پیش کردینا کلام کو دوآتشہ بنادیتا تھا۔
یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ خطابت کا یہ منفرد حدیثی رنگ انھیں سے شروع ہوکر انھیں پر ختم ہوگیا ۔
مجھے امید ہے کہ احادیث کی نشر واشاعت کے سلسلے میں آپ کی خطیبانہ کوششیں إن شاء اللہ تعالیٰ آپ کے نجات کے لیے کافی ہوں گی۔
ـــــــ تحریر :
فیضان سرور مصباحی
١٣/ ستمبر ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں