آج ہمارے اندر کتب کے مطالعے کا شوق کم ہوتا جا رہا ہے

آج ہمارے اندر کتب کے مطالعے کا شوق کم ہوتا جا رہا ہے

  --------------------------------------------------
"حصولِ علم ہے ہر اک فعل سے بہتر
دوست نہیں ہے کوئی کتاب سے بہتر" 

کتب کا مطالعہ حصول علم کا اہم ذریعہ ہے۔ آج سے کچھ برسوں پہلے تک دینی کتب کے مطالعے کا شوق عوام میں خال خال دکھائی دیتا تھا بلکہ اسے بھی مشاغل علماء میں سے ہی شمار کیا جاتا تھا لوگ اپنے فرصت کے وقت کو کتب کے مطالعے میں گزارتے تھے لیکن آج اسے ستم ظریفی کہیں یا کچھ اور کہ آج لوگ سوشل میڈیا میں اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ اب ان میں مطالعہ کتب کا شوق بھی کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔

مطالعہ یعنی  اسٹیڈی عمومی طور پر مطالعہ کا مطلب ہوتا ہے، کہ انسان اپنے ذوق کے مطابق کسی بھی کتاب کو پڑھ کر اس سے حاصل نکات سے اپنی معلومات میں اضافہ کرتا ہے اور اس کتاب میں بیان کردہ تجربوں سے اپنی زندگی بہتر بناتا ہے ۔ مطالعہ کرنا اولیائے عظام اور سلف صالحین علیہمُ السَّلام کا ہمیشہ سے شیوا رہا ہے، یہ حضرات مطالعہ میں اس حد تک منہمک رہتے کہ ارد گرد کا ہوش نہ ہوتا چنانچہ المحدثین علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنے شوق مطالعہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بسا اوقات دورانِ مطالعہ بال یا عمامہ وغیرہ چراغ کی آگ سے جھلس جاتے ہیں لیکن مطالعہ میں مشغولیت کے سبب سے انہیں پتا ہی نہ چلتا۔( اخبار الحیا مع مکتوبات)

حضرت سیدنا امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا حافظے کی دوا کیا ہے؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کتب کا مطالعہ کرتے رہنا حافظے کی مضبوطی کے لئے بہترین دوا ہے (جامع بیان العلم ،ص ١-۵)
کسی دانا کا قول ہے: جس کی بغل میں ہر وقت کتاب نہ ہو اس کے دل میں حکمت و دانائی راسخ نہیں ہو سکتی (تعلیم المتعلم صفحہ 116 )

علامہ عبدالرحمن ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:
 میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی جب کسی نئی کتاب پر نظر پڑ جاتی تو ایسا لگتا کہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے ۔ اگر میں اپنے مطالعے کے بارے میں حق بیان کرتے ہوئے یہ کہوں کہ میں نے زمانے طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو میرا مطالعہ زیادہ ہوگا ۔مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے سلف کے حالات و اخلاق ان کا قوت حافظہ، ذوق عبادت اور علوم نادرہ کا ایسا علم حاصل ہوا جو ان کتابوں کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتا تھا (قیمۃ الزمن عند العلماء صفحہ 62 )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے