پہلا اقامتی مدرسہ ‏از ‏قلم ‏طارق ‏انور ‏مصباحی

مبسملاوحامدا ومصلیا ومسلما

پہلا اقامتی مدرسہ

عہد ماضی میں ارباب علم وفضل مساجد میں یا اپنی رہائش گاہوں پرشائقین علوم دینیہ کو مذہبی علو م وفنون سے آراستہ فرماتے۔اس کے بعد باضابطہ مدارس کا وجود ہوا۔

عہد حاضر میں اگر مدارس اسلامیہ نہ ہوں تو دینی تعلیم کا سلسلہ موقوف ہوجائے اور چند سالوں بعدتلاش بسیارکے بعدبھی کوئی عالم وفاضل،حافظ وقاری،مفتی ومناظر،محقق ومقرر اور امام ومدرس نہ مل سکے،اور دینی خدمات کا نظام درہم برہم ہوجائے۔

مسلمانوں کو اذان ولادت سے لے کر نماز جنازہ تک،اور تدفین کے بعدسے سوئم وچہلم وسالانہ فاتحہ تک اور اس کے بعد بھی قدم قدم پراہل علم کی ضرورت ہے،گرچہ قوم کو اس کا احساس نہیں۔اہل علم نہ ہوں تو اذان ولادت ہو سکے گی،نہ نماز جنازہ۔نہ نکاح ہوسکے،نہ قربانی۔نہ مساجد میں کوئی نمازپڑھا سکے،نہ کوئی بچوں کوقرآن اوردینی علم پڑھا سکے،پھر بھی علما کی نا قدری،بلکہ بے قدری کی جاتی ہے۔

مساجد کے ساتھ مدارس کا قیام

دینی علوم کے تحفظ وبقا کے لیے مدارس اسلامیہ کا قیام بہت ضروری ہے۔باضابطہ مدارس کا قیام پانچویں صدی ہجری سے شروع ہوا۔اسی طرح عہد ماضی میں مساجد کے ساتھ بھی اعلیٰ تعلیم گاہو ں کا انتظام ہوتا تھا۔
آج بھی مساجد کے ساتھ دینی تعلیم کے لیے مکتب ہوتے ہیں۔

کیرلا کی مساجد کے ساتھ جو غیررہائشی مکاتب ہوتے ہیں،ان کو ”پلی درس“کہا جاتا ہے،جہاں اس قدر دینی تعلیم دی جاتی ہے کہ بچے نصف عالم ہو جاتے ہیں،اسی لیے کیرلامیں دین داری بھی ہے اور ہر مردوعورت دینی تعلیم سے راستہ بھی ہے۔

(طلب العلم فریضۃ علٰی کل مسلم ومسلمۃ)پرعمل کا صحیح جلوہ ریاست کیرلاہی میں نظر آتا ہے۔ہرایک پلی درس میں پانچ /چھ استاد دینی تعلیم کے واسطے مقررہوتے ہیں۔ان کامعقول مشاہرہ مسجد کمیٹی ادا کرتی ہے اور اہل محلہ اپنے گھروں سے تین وقت کھانا بھیجتے ہیں۔

بھارت کی حنفی مساجد میں ایک امام کا بوجھ قوم برداشت نہیں کرپاتی۔بہت سے علاقوں میں کھانا بھی نہیں دیتے۔ مسجدکی عمارت بھی بہت عالیشان ہوتی ہے اور مسلمانوں کے گھر بھی شاندار ہوتے ہیں،لیکن امام کی تنخواہ پانچ، سات ہزار تک محدود ہوتی ہے۔

عالم اسلام کے اقامتی مدارس

سب سے پہلا رہائشی دینی مدرسہ پانچویں صدی ہجری میں نیشا پورمیں ”مدرسہ بیہقیہ“کے نام سے قائم کیاگیاتھا۔
امام محمدغزالی (450؁ھ - 505؁ھ) کے استاد امام الحر مین عبدالملک جوینی(419ھ- 478؁ھ) نے مدرسہ بیہقیہ (نیشا پور) میں تعلیم پائی تھی۔

سلطان محمودغزنوی (م421؁ھ) کے بھائی امیرنصرنے بھی نیشا پور میں ”مدرسہ سعدیہ“ قائم کیا تھا۔

سلطان محمودغزنوی(971؁ء-1030؁ء) نے اپنے دارالسلطنت شہر غزنی میں ایک عظیم الشان جامع مسجد تعمیر کی تھی،جس کا نام ”عروس الفلک“تھا۔اس کے ساتھ ہی ایک عظیم الشان اورایک بڑی لائبریری تھی۔

جامعہ نظامیہ:بغداد

خلافت عباسیہ کے وزیر نظام الملک طوسی (م485ھ)نے دارالخلافہ بغداد میں سال 459؁ھ میں ”مدرسہ نظامیہ“قائم کیا تھا۔امام الحرمین جوینی اس مدرسے کے صدرمدرس تھے۔امام غزالی نے یہاں تعلیم پائی تھی۔

جامع ازہر:مصر

 جامع ازہر(مصر)کی تعمیر فاطمی خلیفہ، المعز لدین اللہ کے سالار جوہرصقلی کی تھی۔ابتدائی مرحلہ میں یہ ایک مسجد تھی،پھر وہاں مستقل تعلیم گاہ بھی قائم ہوگئی۔

24:جمادی الالیٰ 359؁ھ مطابق اپریل 970؁ء میں قاہرہ میں اس مسجد کی بنیادرکھی گئی۔07:رمضان 361ھ مطابق 23:جون 972؁ء کواس کی تعمیر مکمل ہوئی۔اس وقت اس کانام جامع القاہرہ تھا۔بعد میں فاطمی خلفا نے خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نام پاک کی مناسب سے اس کا نام ”جامع الازہر“کردیا۔

فاطمی خلفا نے مصر کواپنا دارالسلطنت بنالیاتھا،اوریہ شاہی مسجد اور وسیع وعریض تھی تو ابتدائی مرحلہ میں ہی یہاں دینی تعلیم کا آغاز ہوگیا۔چوں کہ مصر کے فاطمی خلفا شیعہ تھے توجامع القاہرہ میں بھی شیعی افکار ونظریات کا غلبہ تھا۔جب 1171؁ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی(1138؁ء-1193؁ء)مصر کے حاکم ہوئے تو مصر جامع قاہرہ میں اہل سنت وجماعت کے افکار ونظریات کوفروغ حاصل ہوا۔یہ دنیا کا بہت قدیم تعلیمی ادارہ ہے۔

جامع قرویین:مراکش

جامعہ قرویین مراکش کے شہر فاس میں واقع ہے۔ 859ء میں قائم ہونے والی یہ جامعہ مسلم دنیا کے اہم تعلیمی مراکز میں سے ایک ہے اور دنیا کی سب سے قدیم دینی تعلیم گاہ ہے جہاں آج تک تعلیم دی جاتی ہے۔ 

گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز (Guinness Book of World Records)میں اسے موجود ہ دنیا کا سب سے قدیم تعلیمی ادارہ قرار دیاگیا ہے۔یہ ادارہ 1161 سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔

مسجد قرویین کو محمد الفہری نامی ایک دولت مند تاجر کی صاحبزادی فاطمہ الفہری نے 859ء میں تعمیر کروایا تھا۔ الفہری خاندان نویں صدی کے اوائل میں تیونس کے شہر قیروان سے فاس ہجرت کر گیا تھا۔
 اعلیٰ تعلیم یافتہ فاطمہ الفہری اور ان کی بہن مریم الفہری نے وراثت میں والد سے بڑی دولت پائی اور فاطمہ فہری نے اپنے حصے میں آنے والی تمام دولت مسجد القرویین کی تعمیر پر خرچ کر دیا، اور مسجد کو اپنے آبائی شہر قیروان کے نام پرمسجد القرویین کا نام دیا۔یہاں دینی تعلیم کا عمدہ انتظام تھا۔

دوسری بہن مریم فہری نے ”الاندلسیہ“میں مسجد تعمیر کرائی۔اس طرح محمد فہری کی دونوں صاحبزادیوں نے ورلڈ ریکارڈ بنایا۔بعض تاریخوں میں محمد فہری کا نام عبد اللہ فہری مرقوم ہے۔
 
یہ واقعہ مسلم دنیا میں عورتوں کے بے مثال کردار اور ان کی قربانیوں کا آئینہ دارہے۔جامع القرویین کی تعمیر جامع الازہر سے ایک سوگیارہ سال قبل ہوئی تھی۔اس طرح یہ باقی رہنے والی قدیم تعلیم گاہوں میں سب سے مقدم ہے۔ 

جامع قرطبہ کی تعمیر جامع قرویین سے پچھتر سال قبل ہوئی۔جامع قرطبہ اب عیسائیوں کا ایک گرجا گھر ہے۔اس کاتعلیمی سلسلہ سقوط غرناطہ کے ساتھ موقوف ہوگیا۔

2018کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں اس وقت 28077یونیورسٹیز ہیں۔ان میں سب سے پہلی اورسب سے قدیم یونیورسٹی ہونے کااعزاز جامعۃ القرویین کوحاصل ہے۔

یونیسکو(Unesco)کے ریکارڈ کے مطابق پچھلے 1160میں کبھی ایک دن کے واسطے بھی یہاں تعلیم بند نہ ہوئی۔

عہد ماضی سے ہی اس درس گاہ میں مختلف مذاہب کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔دنیا کی بڑی نامور علمی شخصیتیں یہاں تعلیم پائی ہیں۔جامع ازہر کی طرح یہ بھی مسلمانوں کے لیے قابل فخر یاد گار ہے۔

جامع قرطبہ:اندلس
 
اندلس کے اموی سلاطین نے جامع مسجد قرطبہ کی تعمیر کی۔یہ رقبہ کے اعتبارسے دنیاکی سب سے بڑی مسجد تھی۔مسجد کے ساتھ عظیم الشان تعلیم گاہ بھی قائم کی گئی تھی۔اموی خلیفہ امیر عبد الرحمن اول المعروف ”الداخل“نے اس کی بنیاد 784عیسوی میں رکھی اور اس کی تعمیر 987میں مکمل ہوئی۔اس طرح اس کا تعمیری مرحلہ دوصدیوں کومحیط ہے۔کل 203برسوں میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔امیر عبد الرحمن اول کے جانشینوں نے اس کی تعمیر مکمل کی۔

 جامع مسجد قرطبہ کے ساتھ بھی عظیم تعلیم گاہ تھی۔مذہبی تعلیم کے علاوہ اس وقت کی دیگر مروجہ تعلیم کا بھی زبردست انتظام تھا۔ہرمذہب کے لوگ یہاں تعلیم پاتے تھے۔جب سارایورپ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا،تب جامعہ قرطبہ اور جامعہ قرویین علم کی روشنی سے سارے یورپ کومنور کررہے تھے۔

 یہودونصاریٰ ودیگر مذاہب کے طلبہ بھی ا ن عظیم الشان تعلیم گاہوں سے فیض پاتے تھے۔

ایشیائی ممالک میں بغداد علم وفن کا مرکز تھا۔یوروپین ممالک میں جامعہ قرطبہ (اندلس)اور افریقی ممالک میں جامعہ قرویین (مراکش)جامعہ ازہر(مصر)علمی مراکز تھے۔ آج علم وہنر پر غیروں کا قبضہ ہے۔

 خلافت عثمانیہ ترکیہ کے زوال کے بعدمسلمان حکومت کے ساتھ علم وہنر اوراپنی عظمت وشوکت بھی کھوبیٹھے۔
جامع قرویین،جامع قرطبہ اورجامع اسلامی فن تعمیر کا بے نظیر نمونہ ہیں۔ جب 1236میں قرطبہ پر عیسائیوں نے قبضہ کرلیا اوراندلس میں اسلامی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا توعیسائیوں نے جامع مسجدقرطبہ کوگرجا گھر بنا لیا۔

جامعہ قرویین (فاس)اور جامعہ ازہر(قاہرہ) قدیم تعلیمی یادگاروں کے طورپر مسلمانوں کے پاس موجود ہیں۔ جامع قرطبہ ہماری شکست وریخت کی داستان کو بیان کرتی ہے اورہمارے لیے ایک نشان عبرت ہے۔

طارق انور مصباحی

 جاری کردہ:29:ستمبر 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے