تقدیر سے متعلق اَحادیث و آثار

*📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯تقدیر سے متعلق اَحادیث و آثار🕯* 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📬 تقدیر سے متعلق دو احادیث اور دو آثار ذکر کرتے ہیں۔
چنانچہ حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’اگر اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کے تمام باشندوں کو عذاب دینا چاہے تو وہ انہیں عذاب دے سکتا ہے اور یہ اس کا کوئی ظلم نہ ہو گا (کیونکہ وہ سب کا مالک ہے اور مالک کو اپنی ملکیت میں تَصَرُّف کا حق حاصل ہے) اگر وہ ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہو گی، اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر سونا یا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ اس وقت تک ہر گز قبول نہ ہوگا جب تک تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ، دیکھو! جو بات تم پر آنے والی ہے وہ جا نہیں سکتی اور جو نہیں آنے والی وہ آنہیں سکتی، اگر اس کے خلاف عقیدہ رکھتے ہوئے تمہیں موت آ گئی تو سمجھ لو کہ جہنم میں جاؤ گے۔ 
*(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فی القدر، ۱ / ۵۹، الحدیث: ۷۷)* 

حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: 
’’ہر چیز کی ایک حقیقت ہے اور بندہ اپنے ایمان کی حقیقت تک اس وقت پہنچے گا جب وہ اس بات پر یقین کرلے کہ جو مصیبت اسے پہنچی وہ اس سے ٹلنے والی نہ تھی اور جو مصیبت اس سے ٹل گئی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔ 
*(مسند امام احمد، مسند القبائل، ومن حدیث ابی الدرداء عویمر رضی اللہ عنہ، ۱۰ / ۴۱۷، الحدیث: ۲۷۵۶۰)* 


حضرت مسلم بن یسار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: 
’’تقدیر اور اس کے بارے میں کلام کرنا یہ دو ایسی وسیع وادیاں ہیں کہ لوگ ان میں ہلاک تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کی انتہا تک نہیں پہنچ سکتے لہٰذا تم اس شخص کی طرح عمل کرو جسے یہ معلوم ہو کہ اس کا عمل ہی اسے نجات دے گا اور اس شخص کی طرح توکل کرو جسے یہ علم ہو کہ اسے وہی پہنچے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے۔ 
*(تفسیر ابن ابی حاتم، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۶ / ۱۸۱۱-۱۸۱۲)* 

حضرت مطرف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: 
’’کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ چھت پہ چڑھ کے خود کو گرا دے اور کہنے لگے کہ میری تقدیر میں ہی یوں لکھا تھا بلکہ ہمیں ڈر اور خوف ہونا چاہئے اور جب کوئی مصیبت پہنچ جائے تو یہ ذہن بنانا چاہئے کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمارے لیے لکھ دیا۔ 
*(در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۴ / ۲۱۶)* 


 *تقدیر کے بارے میں بحث کرنے سے بچیں:* 
 یاد رہے کہ تقدیر کا مسئلہ انتہائی نازک ہے اور اس مسئلے میں الجھا کر شیطان لوگوں کا ایمان برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ تقدیر کے بارے میں بحث اور غورو فکر کرنے سے بچے۔ 
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: 
’’قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے اور ان میں زیادہ غورو فکر کرنا ہلاکت کا سبب ہے، صدیق و فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے تو ہم اور آپ کس گنتی میں۔۔۔! 
اتنا سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پتھر اور دیگر جمادات کی طرح بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اسے ایک طرح کا اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے اور اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے، برے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اَسباب مہیا کر دئیے ہیں کہ بندہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اسے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اس پر مُؤاخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمراہی ہے۔ 
*(بہار شریعت، حصہ اول، عقائد متعلقۂ ذات وصفات، ۱ / ۱۸-۱۹، ملخصاً)*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے