---------------------------------------
*📚قسطوں پر سامان خریدنا بیچنا کیسا؟📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
علمائے کرام کی بارگاہ میں سوال عرض ہے
قسطوں پر کوئی سامان خریدنا کیسا ہے ؟ جواب عنایت فرمائیں
*المستفتی : محمد جنید عالم نوری کلیر شریف*
__________❣⚜❣___________
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ*
*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
قسطوں پر سامان کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے اس کی صورت اس طرح ہوکہ بائع ( بیچنے والا ) اور مشتری ( خریدار ) کے درمیان مبیع ( جو چیز بیچی جارہی ہے ) کی قیمت مقرر ہو جائے اگرچہ رائج الوقت سے زیادہ ہو اور یہ بھی طے ہوجائے کہ ماہانہ اقساط کی رقم کیا ہوگی اور ادائیگی کتنی مدت میں ہوگی اور قسط کی تاخیر سے جرمانہ نہ ہوگا۔اور مبیع خریدار کی ملک کرکے اس کے حوالے کردی جائے ۔ تو یہ بیع شرعاً درست و جائز ہے
📑جیسا کہ مجلة الاحکام الشرعیہ میں ہے کہ
*" البیعُ مع تأجیل الثمن و تقسیطه صحیح " اھ*
*( 📘مجلة الاحكام الشرعيه ص 113 : الفصل الثانى ، فى البيع بالنسيئة و التاجيل )*
📜 اور قضایا فقهیة معاصرة میں ہے کہ
*" أما الأئمة الأربعة وجمهور الفقهاء و المحدثین فقد أجازوا البیع المؤجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنه بیع موجل بأجل معلوم بثمن متفق علیه عند العقد " اھ*
*(📕 قضایا فقھیہ ص 12 : مطبوعہ دمشق / الدر المختار مع رد المحتار ج 7 ص 362 : مطبوعہ زکریا )*
📃 اور جامع ترمذی میں ہے کہ
*" وقد فَسَّر بعض أهل العلم قالوا بیعتین فی بیعة أن یقول : أبیعُک هذا الثوب بنقد بعشرة و بنسیئة بعشرین ، ولا یفارقه علی أحد البیعتین فإذا فارقه علی أحدهما فلا بأس إذا کانت العقدة علی أحد منهما " اھ*
*(📗الجامع الترمذی : بابُ ما جاء فی النهی عن بیعتین فی بیعة ، رقم : 6231 )*
📄 اور امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ
" جائز ہے جبکہ دونوں حقیقتاً بیع کا ارادہ کریں نہ کہ قرض کا ، اس لئے کہ بیچنا جائز اور کمی بیشی جائز اور مدت معین پر ادهار جائز ،
📑جیساکہ ہم سب باتوں کی تحقیق بیان کر آئے اور اقساط بندی بھی ایک قسم کی مدت ہی معین کرنا ہے ....الخ " اھ
*(📓 فتاوی رضویہ ج 17 ص 493 : رضا فاؤنڈیشن لاھور )*
📜 اور فتاوی فیض الرسول میں ہے کہ
" کوئی بھی سامان اس طرح بیچنا کہ اگر نقد قیمت فوراً ادا کرے تو تین سو قیمت لے اور اگر ادھار سامان کوئی لے تو اس سے تین سو پچاس روپیہ اسی سامان کی قیمت لے ۔ یہ شریعت میں جائز ہے سود نہیں ہے نقد اور ادھار کا الگ الگ بھاؤ رکھنا شریعت میں جائز ہے ۔ مگر ضروری ہے کہ سامان بیچتے وقت ہی یہ طے کر دے کہ اس سامان کی قیمت نقد خریدو تو اتنی ہے اور ادھار خریدو تو اتنی ہے(تو یہ جائز ہے) " اھ
*(📘 فتاوی فیض الرسول ج 2 ص 380 : مطبوعہ شبیر برادر لاہور )*
🚿 لیکن اگر قسط کی تاخیر کی صورت میں سود یا جرمانہ دینا پڑے تو پھر یہ عقد سراسر ناجائز و حرام ہوگا
📄جیسا کہ مفتی جلال الدین احمد امجد ی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ "
( قسطوں کے کاروبار میں ) یہ جائز نہیں کہ تین سو روپیہ میں فروخت کر دیا اب اگر قیمت ملنے میں ہفتہ کی دیر ہوگئی تو اس سے پچیس یا پچاس زیادہ لے ایسا کرے گا تو سود ہوجائے گا " اھ
*(📚 فتاوی فیض الرسول ج 2 ص 380 ' مطبوعہ شبیر برادر لاہور )*
🔖لہذا مذکورہ بالا اصول و ضوابط کی روشنی میں ثابت ہوا کہ قسطوں پر کوئی بھی سامان خریدنا بیچنا جائز ہے ۔
*واللہ اعلم بالصواب*
__________❣⚜❣___________
*✍🏻شرف قلم: حضرت علامہ و مولانا کریم اللہ رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی۔*
*+917666456313*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: حضرت مفتی شان محمد مصباحی صاحب قبلہ۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب مصیب: محمد اختر رضا خان مصباحی مجددی خادم التدریس والإفتاء دارالعلوم مخدومیہ جوگیشوری ممبئی۔*
__________❣⚜❣___________
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں