حضرت سید احمد کالپوی رحمۃ اللّٰه علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯حضرت سید احمد کالپوی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:* 
*اسم گرامی:* حضرت میر سید احمد۔
*لقب:* کالپی شریف کی نسبت سے ’’کالپوی‘‘ کہلاتے ہیں۔
*سلسلہ نسب اس طرح ہے:* میر سید احمد کالپوی بن میر سید محمد کالپوی بن حضرت ابو سعید بن بہاء الدین بن عماد الدین بن اللہ بخش بن سیف الدین بن مجید الدین بن شمس الدین بن شہاب الدین بن عمر بن حامد بن احمد الزاہد الحسینی الترمذی ثم الکالپوی۔ رحمہ اللّٰه علیہم اجمعین
میر سید احمد کالپوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے والد گرامی حضرت سید محمد کالپوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سلسلہ عالیہ قادریہ کے عظیم شیخِ طریقت اور تیسویں امام تھے۔ آپ کے جد امجد حضرت ابو سعید رحمہ اللّٰه آپ کے والد گرامی کی ولادت سے قبل ہی محبت فی اللہ میں شہر دکن کی جانب تشریف لے گئے اور مفقود الخبر ہوگئے۔ 
آپ کا آبائی وطن ترمذ تھا، آپ کے آباؤ اجداد ترمذ سے ہجرت کر کے جالندھر تشریف لائے۔ آپ کے جد امجد سید ابو سعید رحمہ اللّٰه نے وہاں سے کالپی کو اپنا وطن بنایا۔ آپ ترمذی سادات کرام سے ہیں۔ آپ کا خاندان علماء و صلحاء اتقیاء کا خاندان ہے۔
*(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ:315)*

*مقام ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت کالپی شریف (ہند) میں ہوئی۔

*تحصیلِ علم:* آپ رحمۃ اللّٰه علیہ نے ابتدائی کتب اپنے والد ِ ماجد سے پڑھیں، اس کے بعد آپ کے والد محترم نے آپ کی تعلیم و تربیت کےلئے اپنے مرید و خلیفہ حضرت شاہ افضل بن عبدالرحمن الہ آبادی رحمہ اللّٰه کو منتخب فرمایا۔ جن کی خدمت میں آپ نے حسامی سے بیضاوی تک جملہ علوم متداولہ کی تکمیل فرمائی۔ 
استاذِ گرامی آپ کی علمی صلاحیت و قابلیت کی بنیاد پر آپ سے بے انتہاء محبت فرماتے تھے۔ آپ عربی و فارسی ادب کے ماہر کامل اور علوم ِ منقولات و معقولات کے بےبدل عالمِ دین اور اپنے وقت کے بےمثال مدرس و مصنف تھے۔

*بیعت و خلافت:* آپ نے علوم ِدینیہ کی تکمیل کے بعد اپنے والد معظم سے بیعت کا شرف حاصل کیا، اور صرف 24سال کی عمر میں مسندِ والد ماجد پر رونق افروز ہوئے، اور تلقین و ارشاد کی محفل کو رونق عطاء کی۔

*سیرت و خصائص:* شیخ المشائخ، واقفِ اسرار حقائق، وارث علوم نبوت، آفتابِ ہدایت، ماہتابِ ولایت، حضرت شیخ سید میر احمد کالپوی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے اکتیسویں امام اور شیخِ طریقت ہیں۔ آپ جامع علوم ِ ظاہر و باطن اور شناورِ بحارِ حقیقت و معرفت تھے۔ زہد و تقویٰ، عبادت ریاضت میں میں ماہرِ کامل تھے۔ اخلاقِ و عادات میں نبیِ مکرمﷺ کی تعلیم کی تصویرِ مجسم تھے۔ علوم و معارف آپ کی نوکِ زبان پر جاری رہتے۔ کشف و کرامات اخفاء کے باوجود کثرت سے ظاہر ہوجاتیں۔ نورِ ہدایت و معرفت آپ کی روشن پیشانی سے عیاں تھا۔ اللہ جل شانہ نے آپ کو کمالِ معنوی کےساتھ جمال صوری سے بھی خوب نوازا تھا۔ 
چنانچہ حضرت شاہ خوب اللہ الہ آبادی رحمہ اللّٰه فرماتے ہیں:
’’میرے شیخ نے مجھے فرمایا کہ پہلی بار جب میں حضرت شیخ کی ملاقات سے مشرف ہوا۔ تو ان کے اندر سرخیِ جمال و عشقِ حقیقی کو مجتمع پایا، اور اس کی وجہ سے جو شعاع نورانی ہویدا ہوتی، اس کو دیکھنے سے میری نگاہ خیرہ ہوجاتی‘‘۔ (ایضا: 325)

*عادات و خصائل:* آپ عبادت و ریاضت میں کامل اور بڑے متبعِ سنت تھے۔ اس کے علاوہ آپ کا بہترین مشگلہ رسائلِ توحید اور مقالاتِ شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللّٰه علیہ کی تشریح بیان کرنا، اور ہر نماز کے بعد سلام سے متصل نو مرتبہ کلمہ طیبہ کا ورد بآواز بلند کرتے تھے۔ مسئلہ توحیدِ باری کی تشریح پر اگر کوئی معترض ہوتا تو اس سے مناظرے بھی کرتے تھے۔ آپ حضرت شیخِ اکبر رحمۃ اللّٰه علیہ کے محبین میں سے تھے، اور آپ ان کے نظریات کا دفاع کرتے تھے۔

*حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللّٰه علیہ سے عقیدت:* آپ کو سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰه علیہ کی بارگاہ سے خاص عقیدت و محبت تھی۔
چنانچہ ایک مرتبہ اپنے والد ماجد حضرت سید میر محمد رحمہ اللّٰه کے ہمراہ روضہ مبارکہ پر حاضر ہوئے، اور آپ کو بارگاہِ خواجہ سے روحانی فیض حاصل ہوا۔

*توجہ کی تاثیر:* آپ کے کشف و توجہ میں غضب کی تاثیر تھی۔ جس شخص پر توجہ کی نظر کرتے، وہ بے خود ہوکر گر پڑتا۔ 
چنانچہ حضرت شاہ خوب اللہ الہ آبادی رحمہ اللّٰه بیان فرماتے ہیں: ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: 
’’حضور ! میرے دل کی سختی اور تنگی اپنے شباب پر ہے، میرا کوئی قریبی رشتے دار یا لڑکا بھی وصال کر جائے تو حالتِ گریہ نہیں آسکتی۔ اس لئے حضور سے التماس ہے کہ میری اس حالت زار پر توجہ فرمائیں‘‘۔آپ نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ کر ہلایا مگر اس کی کیفیت بدستور باقی رہی، یہاں تک کہ تیسری بار میں اس پر رقّت کی کیفیت طاری ہوئی اور وہ آہ و بُکا کرنے لگا۔اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ جب اسے افاقہ ہوا تو اِس عظیم کرامت کو دیکھ کر آپ کے دستِ مبارک پر بیعت ہوا اور عقیدت مندوں میں داخل ہو گیا۔ (ایضا: 326)

*ذوقِ شاعری:* آپ ہندی و فارسی کے قادرالکلام شاعر تھے۔
آپ نے بہت اشعار تحریر فرمائے، جو آپ کے علمی و ادبی ذوق پر شاہد ہیں۔ آپ کے اشعار کے مجموعے کا نام ’’دیوانِ شعر‘‘ ہے۔

*علمی و تصنیفی خدمات:* آپ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔مختلف موضوعات پر آپ کی عمدہ تصانیف موجود ہیں۔1جامع الکلم فارسی۔ 
2 شرح اسماء الحسنیٰ۔ 
3 شرح بسیط علیٰ عقائد النسفیہ۔ 
4 رسالہ معارف۔ 
5 مشاہدات الصوفیہ۔
6دیوان شعر۔

*اولادِ امجاد:* اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین فرزند عطاء فرمائے۔جو نہایت ہی عابد و زاہد اور متقی و پرہیزگار تھے۔ حضرت سید شاہ فضل اللہ کالپوی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔ حضرت سید شاہ سلطان مقصود رحمۃ اللّٰه علیہ۔ حضرت سید شاہ سلطان محمود رحمۃ اللّٰه علیہ۔

*تاریخِ وصال:* آپ کا وصال 19؍صفر المظفر، بروز پنجشبہ (جمعرات)، بوقتِ شام، 1084ھ، کو ہوا۔ آپ کا مزار مبارک کالپی شریف (ہند) میں مرجع خلائق ہے۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے