-----------------------------------------------------------
*🕯مجاہد جنگ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسمِ گرامی:* علامہ فضلِ حق خیرآبادی۔
*القاب:* مجاہدِ جنگِ آزادی، بطلِ حریت، امام المناطقہ، رئیس المتکلمین وغیرہ۔
*والد کااسمِ گرامی:* بانیِ سلسلہ خیرآبادیت امام المناطقہ حضرت علامہ مولانا فضلِ امام خیرآبادی رحمۃ اللہ علیہ۔
*سلسلہ نسب اسطرح ہے:* علامہ فضلِ حق خیرآبادی بن مولانا فضلِ امام خیرآبادی بن محمد ارشد بن محمد صالح بن عبد الواحد بن عبد الماجد بن قاضی صدر الدین خیر آبادی۔ (علیہم الرحمۃ والرضوان)
آپ کاشجرۂ نسب تینتیس واسطوں سے امیرالمؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔
*(حدائق الحنفیہ۔ روشن دریچے:61)*
*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 1212ھ، مطابق 1797ء کو خیرالبلاد "خیرآباد" (ضلع سیتاپور، اترپردیش، انڈیا) میں ہوئی۔
*تحصیلِ علم:* علامہ فضلِ حق خیرآبادی علیہ الرحمہ نے معقولات اپنے والدِ گرامی علامہ فضلِ امام خیرآبادی علیہ الرحمہ سے اور منقولات خاتم المحدثین حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور تصوف و اخلاق حضرت شیخ الاسلام محمد علی خیرآبادی علیھم الرحمہ سے حاصل کیے۔ آپ کی ذہانت و فطانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے صرف چار ماہ کی قلیل مدت میں قرآنِ مجید حفظ کر لیا۔ تیرہ سال کی عمر میں درسیات سے فارغ ہو کر کامل استاذ بن گئے۔
*بیعت و خلافت:* آپ رحمۃ اللہ علیہ سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت شاہ دھومن دہلوی علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے۔
*سیرت و خصائص:* مجاہدِ تحریک آزادی، شیرِ خدا، بطل ِحریت، علوم و معارف کا بحر ِبیکراں، کشور ِعلم کا تاجدار، منقولات و معقولات کا امام علامہ فضل حق خیرآبادی، عمری، حنفی، ماتریدی، چشتی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ علیہ الرحمہ علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے۔ فنونِ حکمیہ اور علومِ عقلیہ کے مسلم الثبوت امام تھے، بلکہ مجتہد و امام تھے۔ بڑے ادیب، بڑے منطقی، نہایت ذہن، نہایت زکی، خلیق و ذلیق، انتہائی صاحبِ تدقیق و تحقیق تھے۔ علامہ موصوف نے اپنے مشہور "قصیدے ہمزیہ" میں بطور تحدیثِ نعمت اپنے علم و فضل کا اس انداز سے ذکر کرتے ہیں:
؏: اللہ اقنانی علوما یقتنی۔۔۔منھا علوماجمۃ علماء۔
یعنی"اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ علوم عطاء کیے ہیں کہ ان میں سے بہت کچھ علماء نے حاصل کیے"۔
آپ معقولات کے تو امام تھے ہی لیکن حیرت کی بات ہے کہ عربی فارسی وغیرہ کے بہترین ناظم و ناثر بھی تھے۔ علامہ فضلِ حق خیرآبادی علیہ الرحمہ صحیح العقیدہ سنی حنفی تھے۔ آپ نے مولوی اسماعیل دہلوی کے رد میں "تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ" لکھی۔ اس کی بعض گستاخانہ عبارات پر تکفیر فرمائی اور یہ فتویٰ دیا:
"اس بے ہودہ کلام کا قائل از روئے شریعت کافر و بے دین ہے اور شرعاً اس کا حکم قتل اور تکفیر ہے"۔
کچھ ہی عرصہ بعد اتفاقاً وہ بالاکوٹ کے غیور مسلمانوں کے ہاتھوں قتل بھی ہوگیا۔
مولانا عبدالقادر صدر الصدور فرماتے ہیں:
"عربی ادب میں ابوالحسن اخفش جیسے ہیں، ان کی نثر مقاماتِ حریری سے اور نظم دیوانِ متنبی سے ممتاز ہے"۔
اس تاریخی حقیقت سے ہر اہل فہم اور ذی علم واقف ہے کہ سرزمینِ ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کی تحریک کے قائدِ اعظم کی حیثیت علامہ فضل حق خیرآبادی کو ہی حاصل ہے۔ علامہ کی تصنیف "الثورۃ الہندیہ" اور " قصائدِ فتنۃ الہند" جنگِ آزادی1857ء کے نہایت قابلِ قدر ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
چوں کہ علامہ فضل حق خیرآبادی نے محمد بن عبدالوہاب نجدی کی "کتاب التوحید" کے اردو چربہ "تقویۃ الایمان" مولفہ مولوی اسماعیل دہلوی کے ساتھ ساتھ دیگر عقائدِ وہابیہ کی تردید میں کلیدی کردار ادا کیا۔ باایں سبب آپ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی بہت زیادہ کوششیں کی گئیں۔ چناں چہ تاریخی حقائق و شواہد پر پردہ ڈالنے اور جنگِ آزادی کے مسلمہ راہنماؤں کے خلاف فضا پیدا کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ علامہ فضل حق خیرآبادی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ نہیں دیا تھا۔ اس تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی۔ لیکن حق چھپانے سے نہیں چھپ سکتا، اور ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ دروغ کو فروغ نہیں ہوتا ہے۔ مخالفین کے گھر سے گواہی۔مسلکِ مخالف کے شیخ الاسلام حسین احمد مدنی کہتے ہیں:
"مولانا فضل حق صاحب خیرآبادی کو جو کہ تحریک کے بہت بڑے رکن تھے اور بریلی، علی گڑھ اور اس کے ملحقہ اضلاع کے دورانِ تحریک میں گورنر تھے، آخر ان کو گھر سے گرفتار کیا گیا۔ جس مخبر نے ان کو گرفتار کرایا تھا اس نے انکار کر دیا کہ مجھے معلوم نہیں، فتویٰ جہاد پر جس نے دستخط کیے ہیں وہ یہ فضل حق ہیں یا کوئی اور ہیں ؟۔۔
مولانا نے فرمایا:"مخبر نے پہلے جو رپورٹ لکھوائی تھی وہ بالکل صحیح تھی کہ فتویٰ میرا ہے۔ اب میری شکل و صورت سے مرعوب ہو کریہ جھوٹ بول رہا ہے"۔ قربان جائیے! علامہ کی شانِ استقلال پر خدا کا شیر گرج کر کہہ رہا ہے کہ میرا اب بھی وہی فیصلہ ہے کہ انگریز غاصب ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے۔ خدا کے بندے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ وہ جان کی پروا کیے بغیر سر بہ کف ہو کر میدان میں نکلتے ہیں اور لومڑی کی طرح ہیر پھیر کر کے جان نہیں بچاتے بل کہ شیروں کی طرح جان دینے کو فخر سمجھتے ہیں۔"
*(حسین احمد مدنی: تحریک ریشمی رومال، مطبوعہ لاہور۔1960ء،ص۔65)*
ان نام نہاد "محققین" کی تقلیدی اور متعصبانہ تحقیق پر ان کے اپنے مسلک کے منصف مزاج شخصیات نے تنقید کی ہے: پاکستان میں دیوبندی مکتبِ فکر کے آرگن ہفت روزہ "خدام الدین" لاہور کے ایک مضمون کے چند اقتباس ملاحظہ ہوں۔ یہ اقتباسات علامہ فضل حق خیرآبادی کے فتوائے جہاد کےمنکرین کے لیے لمحۂ فکریہ سے کم نہیں اور ان لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے جو علامہ کی مجاہدانہ سرگرمیوں کو محض ایک مخصوص مسلک کے لوگوں تک محدود کرنے کی سعیِ نا مشکور کر رہے ہیں۔ فرماتے ہیں:
"بُرا ہو تاریخ کا۔ اس نے اپنے حافظہ سے ایسی ایسی جاں باز، حق گو، بہادر اور جامع کمالات شخصیتوں کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا۔جنھوں نے اپنے دور میں وقت کے تیز وتند طوفانوں سے بے خوف ٹکر لی اور پیٹھ نہیں دکھائی۔ مولانا فضل حق رحمۃ اللہ علیہ تاریخ کے ان جواں مرد اور نڈر مجاہدین میں سے تھے جن کی جرات و ہمت اور حق گوئی و بے باکی نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔مگر تاریخ کے صفحات میں ان کو شایانِ شان کیا، کوئی معمولی جگہ بھی نہیں مل سکی۔ مولانا فضل حق خیرآبادی نے افضل الجہاد کلمۃ الحق عند سلطانِ جابر کا فریضہ ادا کیا اور اپنی عمرِ عزیز انڈومان میں حبسِ دوام کی نذر کر دی۔علامہ فضل حق خیرآبادی نے انگریزوں کے خلاف فتویٰ دےکرمسلمانوں کو عدم تعاون پر آمادہ کیا۔ مولانا فضل حق خیرآبادی (اسی جرم میں) "باغی" قرار دیے گئے"۔
*(مضمون:"مولانا فضل حق خیرآبادی"۔ از: مستقیم احسنؔ حامدی۔ فاضل دارالعلوم دیوبند۔ ہفت روزہ خدام الدین، لاہور 23/ نومبر 1962ء، ص،9/10)*
الغرض تاریخی حیثیت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ فضلِ حق خیرآبادی انگریزوں کے حامی و مددگار نہ تھے بلکہ ان کے حامیوں اور مددگاروں کو مرتد و بے دین سمجھتے تھے۔ وہ علم و فضل کے بحرِ بےکنار تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کا حق ادا کر دیا۔ سنتِ حسین پر عمل پیرا ہوکر اپنی جان قربان کردی لیکن باطل کے سامنے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہوئے۔
*وصال:* جزیرہ انڈمان کی جیل میں ایک سال دس ماہ تیرہ دن اسیری میں رہ کر 12/صفرالمظفر 1278ھ، مطابق 20/ اگست 1861ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آج بھی آپ کی قبر "آزادی" کی آذانیں سنا رہی ہے۔
*ماخذ و مراجع: حدائق الحنفیہ۔ خیرآبادیات۔ تذکرہ علمائے ہند۔ دو قومی نظریہ اور علمائے اہلسنت۔ جنگِ آزدی میں علامہ فضلِ حق خیرآبادی کا کردار۔*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں