Header Ads

قیامت کے دن کافر اور نیک مسلمان کی آرزو

قیامت کے دن کافر اور نیک مسلمان کی آرزو
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

 قیامت کے دن کافر تو اپنے مسلمان ہونے کی آرزو اور نہ ہونے پر حسرت و افسوس کریں گے جبکہ نیک مسلمان کا حال یہ ہو گا کہ اگر بالفرض کوئی شخص پیدا ہوتے ہی عبادات میں ایسے مشغول ہوجائے کہ کبھی کوئی کام نفس کے لیے نہ کرے اور اسی حال میں بوڑھا ہو کر مرجائے تو وہ یہی کہے گا کہ میں نے کچھ نہ کیا، اور موقعہ ملتا تو اور کچھ کرلیتا، کاش مجھے عبادات اور ریاضات کے لیے دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تاکہ میرے اجر میں مزید اضافہ ہو جائے۔
چنانچہ حضرت محمد بن ابو عمیرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’اگر کوئی بندہ اپنی پیدائش کے دن سے اپنے چہرے کے بل گر جائے حتّٰی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں بوڑھا ہو کر مرجائے تو اُس دن اِس عبادت کو حقیر سمجھے گا اور تمنا کرے گا کہ دنیا میں لوٹایا جائے تاکہ وہ اجر و ثواب اور زیادہ کرے۔
*(مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث عتبۃ بن عبد السلمی ابی الولید، ۶ / ۲۰۳، الحدیث: ۱۷۶۶۷)* 

 *لمبی امید رکھنے کی مذمت:*
(1) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’بڑے بوڑھے کا دل بھی دو باتوں میں ہمیشہ جوان رہتا ہے (1) دنیا کی محبت میں۔ (2) امیدوں کی درازی میں۔
*(بخاری، کتاب الرقاق، باب من بلغ ستّین سنۃ۔۔۔ الخ، ۴ / ۲۲۴، الحدیث: ۶۴۲۰)* 

(2) حضرت عمرو بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:
’’خدا کی قسم! مجھے تمہاری مُفلسی کا کوئی ڈر نہیں ہے بلکہ تمہارے بارے میں ڈر یہ ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کر دی جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کر دی گئی تھی اور تم اس کے ساتھ ایسا ہی پیار کرنے لگو جیسا پہلے لوگوں نے اس کے ساتھ کیا اور یوں تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسے پہلے لوگوں کو اس نے ہلاک کر دیا۔ 
*(مسلم، کتاب الزہد والرقائق، ص۱۵۸۳، الحدیث: ۶(۲۹۶۱)* 

(3) حضرت عبداللّٰہ بن عمر و رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’اس امت کے پہلے لوگ یقین اور زُہد کی وجہ سے نجات پا گئے جبکہ اس امت کے آخری لوگ بخل اور (لمبی) امید کی وجہ سے ہلاک ہوں گے۔ 
*(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الباب الثانی فی الاخلاق والافعال المذمومۃ، الفصل الثانی، ۲ / ۱۸۱ الحدیث: ۷۳۸۰، الجزء الثالث)* 

(4) حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’مجھے اپنی امت پر دو باتوں کا زیادہ خوف ہے۔ (1) خواہشات کی پیروی کرنا۔ (2) لمبی امید رکھنا۔ 
کیونکہ خواہشات کی پیروی کرنا حق سے روکتا ہے اور لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں۔ یہ دنیا پیٹھ پھیر کر چلی جانے والی اور آخرت پیش آنے والی ہے،ان دونوں میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں، اگر تمہیں دنیا کے بیٹے نہ بننے کی اِستطاعت ہو تو دنیا کے بیٹے نہ بننا کیونکہ تم آج عمل کرنے کی جگہ میں ہو اور (یہاں ) حساب نہیں لیکن کل تم حساب دینے کی جگہ میں ہو گے اور (وہاں ) عمل نہیں ہو گا۔ 
*(شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۷ / ۳۷۰، الحدیث: ۱۰۶۱۶)* 

اللّٰه تعالیٰ ہمیں لمبی امیدیں رکھنے اور محض دنیا کی طلب میں مشغول رہنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰه علیہ وسلم

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ ارشـد رضـا خـان رضـوی امجـدی، ممبر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 7620132158*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے